Posts

Showing posts from 2018

اہل جنت کی باہم گفتگو

Image
             اہل جنت کی باہم گفتگو *ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمیؔ محمدیؔ مہسلہ*       جنتی لوگ جنت میں باہم اپنے دوست، احباب، رشتہ دار، قرابت دار سے ملاقات کریں گے، ایک دوسرے سے گفتگو کریں گے، خوب مزے لے لے کر باتیں کریں گے، دنیا کی پر مشقت زندگی کو یاد کر کے ملی جنت پر رب العالمین کا خوب شکر ادا کریں گے، عالیشان مسندوں، سجے تختوں اور نفیس وعمدہ فرشوں پر تکیے لگائے جلوہ افروز ہوں گے، میل ومحبت کا اظہار کریں گے، وہاں کسی سے دل میں کوئی بغض، نفرت، کینہ، کپٹ اور مار پیٹ کا کوئی تصور نہیں ہوگا، بلکہ اہل جنت بالکل آمنے سامنے بھائی کی طرح بیٹھ کر باہم گفتگو کریں گے، اللہ تعالٰی فرماتا ہے، "وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ"(الحجر:47) اُن کے دلوں میں جو تھوڑا بہت کھوٹ، کینہ کپٹ ہو گا اسے ہم نکال دیں گے، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر بالکل آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔        اہل جنت کی گفتگو میں ہمیشہ پاکیزگی کی جھلک ہوگی، وہاں کوئی گناہ اور لغو بات کا نام ونشان نہیں ہوگا، ہر وقت ان کی زبان پر سلامتی کا کلمہ جاری ہوگا

Alcohol prohibited in Islam

Image
CAN A MUSLIM  DRINK ALCOHOL? When a European Airline was initially launched, a PRACTICING MUSLIM  gentleman was traveling in the first class section. An air hostess approached him with a complimentary drink, this was an alcoholic drink, but the man politely refused.The air hostess returned but this time brought the drink on a platter, designed to appeal and impress. However, the MUSLIM man again politely refused, explaining he doesn't drink alcohol.The air hostess was concerned and informed the manager. The manager approached the man with another platter, now designed with flowers. He questioned, “Is there something wrong with our service? Please enjoy the drink, it is a complimentary offer.” The man replied, “I am a MUSLIM and I do not drink alcohol? The manager still insisted that the man take the drink. Then, the MUSLIM  proposed that the manager should give the drink to the pilot first. The manager stated, “How can the pilot drink alcohol, he’s on duty! And if he drinks

محبت کرنے کے تین بنیادی اسباب

Image
*فطری طور پر کسی سے محبت کرنے کے تین بنیادی اسباب ہوتے ہیں، اول: جَمال (خوبصورتی) دوم: کمال (ہنر، فن، کارنامہ) سوم: نَوال (جود وسخاوت، داد ودہش، ہدایا وتحائف دینا) پیارے نبی کے اندر یہ تینوں اوصاف بدرجہ اتم پائے جاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کا ہر انصاف پسند انسان آپ سے محبت کرتا ہے، حتی کہ نان مسلم کی اکثریت بھی آپ کو چاہتی ہے، یہ ایسی سچائی ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے، میں کہتا ہوں کہ رسول کی مبارک اور پاکیزہ سیرت کو غیروں نے بھی اجاگر کیا ہے، کتابیں لکھی ہیں، قصیدے کہے ہیں*(مستفاد از خطبات استاد محترم شیخ عبدالحسیب مدنی حفظہ اللہ) عبیداللہ شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ  29/11/2018

مومن کا مرتبہ

Image
📌قال خلف بن هشام - رحمه الله - (أحد القرّاء العشرة) : أتيت سليم بن عيسى لأقرأ عليه ، فكنت أقرأ عليه حتى بلغت يوماً سورة غافر فلما بلغت إلى قوله تعالى:  ﴿ وَيَسْتَغْفِرُ‌ونَ لِلَّذِينَ ءآمَنُوا ﴾ بكى بكاءً شديداً ، ثم قال لي:  يا خلف ألا ترى ما أعظم حق المؤمن؟  تراه نائماً على فراشه  والملائكة يستغفرون له . 📚[ وفيات الأعيان: 242/2 ].      بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين       *خلف بن ہشام رحمہ اللہ مشہور قراء عشرہ میں سے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں سلیم بن عیسی کے پاس پڑھنے آیا، تو میں ان کو سنانے لگا یہاں تک کہ میں ایک دن سورہ غافر تک پہنچ گیا پس جب میں اس آیت کریمہ پر پہنچا، "وَيَسْتَغْفِرُ‌ونَ لِلَّذِينَ ءآمَنُوا" کہ وہ فرشتے اہل ایمان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں، تو اس پر وہ بہت زیادہ آبدیدہ ہوئے یعنی خوب آنسو بہائے، پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ اے خلف بن ہشام کیا تم دیکھتے نہیں کہ مومن کا مرتبہ کتنا بلند وبالا ہے، تم تو اس مومن کو بستر پر سویا ہوا پاتے ہو مگر اس کے لیے اللہ کی معصوم نوری مخلوق فرشتے رحمت ومغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں-* *ترجمانی:عبیداللہ بن ش

لڑکیوں کی وراثت ڈکارنے والے حرام خور

Image
لڑکیوں کی وراثت ڈکارنے والے حرام خور تحریر: شمس الرب خان ====== تحریر کا عنوان کچھ زیادہ ہی سخت ہے؟ مجھے بھی معلوم ہے! لیکن میں نے جان بوجھ کر یہ عنوان لگایا ہے کیونکہ کبھی کبھی کچھ خبیث عادتیں اس طرح پختہ ہوجاتی ہیں کہ نرم لہجے کام ہی نہیں کرتے۔ دوسری بات یہ کہ اگرچہ عنوان سخت ہے لیکن سچ ہے۔ اور سچ سخت نہیں ہوتا۔ ہمارے اندر کا شیطان اسے سخت محسوس کراتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ جب حرام خوری کر رہے ہیں تو حرام خور ہی کہا جائے گا، نا! حرام خوری بند کردیں، کوئی نہیں کہے گا۔ دیکھیے، یہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہمارے سماج میں لڑکیوں کو ان کے حق وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ باپ کی جائیداد کے بٹوارے کے وقت صرف لڑکوں کا حصہ ہی لگایا جاتا ہے اور لڑکیوں کو پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی جاتی۔ یہ اسلامی شریعت کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے اور اللہ و رسول کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس گناہ عظیم میں عوام تو عوام علماء بھی ملوث ہیں۔ ہاں، یقینا سماج میں اللہ کے کچھ برگزیدہ بندے اب بھی ہیں جو وراثت میں لڑکیوں کو ان کا حق دیتے ہیں، لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور وہ مستثنی کے درجے

حضرت حسین رضی اللہ عنہ

Image
حضرت حسین رضی اللہ عنہ        حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سنگین قتل ہر مسلمان کے لیے قابل غم اور تکلیف کا باعث ضرور ہے، کیونکہ وہ مسلمانوں کے سپہ سالار، علماء صحابہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی افضل بیٹی کے بیٹے یعنی آپ کے نواسے تھے، حسین بہت بڑے عابد، شجاع اور بہت بڑے سخی وفیاض تھے-     لیکن جیسے شیعہ اور روافض غم مناتے ہیں، نوحہ وماتم کرتے ہیں، اپنے غم کا بدترین طریقے سے اظہار کرتے ہیں یہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، اس میں اکثر وہ مکاری اور ریاکاری کا ثبوت پیش کرتے ہیں، حسین کے نام پر نوحہ وماتم جائز نہیں ہے کیونکہ حسین کے ابو علی بن ابی طالب حسین سے افضل تھے، وہ سترہ رمضان چالیس ہجری کو کوفہ میں شہید کر دیے گئے جب کہ وہ نماز فجر کے لیے مسجد جا رہے تھے، مگر شیعوں نے ان کا ماتم کبھی نہیں کیا، اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک تو علی رضی اللہ عنہ سے بہتر ہیں، ان کو بڑی بےدردی سے گھر میں گھیر کر شہید کردیا گیا، یہ واقعہ ذوالحجہ ایام تشریق سنہ چھتیس ہجری کا ہے، مگر ان کا بھی ماتم نہیں کیا گیا، اسی طرح عمر فاروق رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے وہ عثمان رضی اللہ

مسلمانوں جاگو کسی بھی چیز کو آگے بھیجنے سے پہلے

مسلمانوں جاگو کفارِ قریش نے بہت سے گالیوں سے بھرے اشعار لکھے.. جن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرنے کی کوشش کی گئی تھی.. مگر وہ اشعار ہم تک نہیں پہنچے.. کـــــیوں؟؟ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے وہ شعر.. نا ہی یاد کیئے.. اور نا ہی آپس میں شیئر کیئے. اس طرح سے وہ سارے اشعار فنا ہو گئے. 🌿🌿🌿🌿🌿🌿 ﺁﺝ ﮐﻞ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺁ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ.. ﮔﺴﺘﺎﺧﺎﻧﮧ ﻣﻮﺍﺩ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﻔﺎﺭ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﭘﮭﯿﻼ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ.. اور وہ یوں کہ: ﮐﻔﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﮔﺴﺘﺎﺧﺎﻧﮧ خاکہ یا ﺗﺼﻮﯾﺮ بناتے ہیں.. پھر اس ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﻟﮑﮫ ﺩیتے ہیں ﮐﮧ: "لکھنے یا بنانے والے پہ ﻟﻌﻨﺖ بھیج ﮐﺮ ﺁﮔﮯ ﺷﯿﺌﺮ ﮐﺮﯾﮟ"۔ ﺍﺏ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺧﺘﻢ اور مسلمانوں کا شروع ہو جاتا ہے.. اس کے بعد ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻟﻌﻨﺖ بھیجنے ﮐﮯ ﭼﮑﺮ میں ﺍﯾﺴﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮتے ہیں ﮐﮧ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺗﮏ ﯾﮧ ﮔﺴﺘﺎﺧﺎﻧﮧ ﻣﻮﺍﺩ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎتا ہے۔ 🌿🌿🌿🌿🌿🌿 حـــــــــــــل: کوئی بھی ﮔﺴﺘﺎﺧﺎﻧﮧ ﺧﺎﮐﮧ ﯾﺎ تصویر یا ﻓﻠﻢ ﮐﺎ ﭨﮑﮍﺍ.. ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﺁﭖ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﮯ..!! ﺗﻮ ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ.. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقشِ قدم پر چلیں.. بغیر دیکھے بغیر ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺷﯿﺌﺮ ک

بغير ولی کے شادی نہیں ہوسکتی ہے

          *بغير ولی کے شادی نہیں ہوسکتی ہے *ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمیؔ محمدیؔ مہسلہ              شادی نفس کی اہم ترین ضرورت ہے، بغیر شادی کے انسان ناقص اور اس کی زندگی بےسود ہے، شادی نفس اور قلب وجگر کی تسکین کا باعث ہے، شادی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، شادی انبیاء کی سنت ہے، شادی سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے، شرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے، شادی خیر وبرکت کی سواری ہے، الغرض شادی کی اتنی زیادہ اہمیت اور افادیت ہے جس کا کوئی منکر نہیں ہے-        مگر یہ بات یاد رہے کہ ہر شادی خیر وعافیت کا مظہر نہیں بنتی ہے، وہی شادی خیر وبرکت کا باعث ہے جس میں کم خرچ ہو، شادی کا حقیقی لطف اور مزا اسی وقت ہے جب نکاح شرعی طریقے کے مطابق ہو-       سوال یہ ہے کہ شرعی نکاح کیسے ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ولی اور گواہوں کی موجودگی میں دلہے سے مع مہر ایجاب وقبول کرانے کا نام نکاح ہے، نکاح میں ولی کا ہونا شرط ہے، بغیر ولی کے نکاح نہیں ہوگا، اسلامی شریعت میں ولی کے بغیر نکاح شرعی کا کوئی تصور نہیں ہے، جو شخص کسی لڑکی سے بغیر ولی کی اجازت سے شادی کرلے، یا اسی طرح کوئی لڑکی خود اپنا کورٹ میرج کرلے تو ایسا نکاح

عید کے موقع پر لڑکیوں سے گلے ملنا کیسا ہے؟

*عید کے موقع پر لڑکیوں سے گلے ملنا کیسا ہے؟ *ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمیؔ محمدیؔ مہسلہ*      بغل گیر ہونے، گلے ملنے کو عربی میں معانقہ کہتے ہیں، معانقہ یہ عنق سے ماخوذ ہے، عنق عربی میں گردن کو کہتے ہیں چونکہ گلے ملنے میں گردن گردن سے ملتی ہے، اس لیے معانقہ سے تعبیر کیا گیا ہے، معانقہ، مصافحہ اور سلام یہ تینوں مسنون عمل ہے، سلام اور مصافحہ تو ملتے جلتے وقت کبھی بھی کر سکتے ہیں، لیکن معانقہ یہ سفر کی واپسی پر پہلی ملاقات کے وقت ہے، اس کے علاوہ عام دنوں میں یا عیدین اور جمعہ کی خوشی میں معانقہ کرنا سنت اور اسلاف امت سے ثابت نہیں ہے، مرد مرد سے مصافحہ کرے، اس سے بغل گیر ہو، عورت عورت سے مصافحہ کرے آپس میں گلے ملے، یہ جائز ہے، لیکن کسی اجنبی مرد کا کسی اجنبی عورت سے یا اجنبی عورت کا کسی اجنبی مرد سے مصافحہ اور معانقہ کرنا جائز نہیں ہے، یہ نہایت گندہ اور فحش کام ہے، زنا اور بےحیائی میں داخل کرنے والا عمل ہے، شریعت مطہرہ میں عورت کو اجنبی مرد سے اور مرد کو اجنبی عورت سے آپس میں پردہ کرنے اور نگاہ جھکانے کا حکم دیا ہے، اور آپس میں بات چیت کرنے، تانک جھانک کرنے، نظر سے نظر ملانے،

جماعت چھوڑ کر فجر کی سنت پڑھنا صحیح ہے؟

 جماعت چھوڑ کر فجر کی سنت پڑھنا صحیح ہے؟ بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين *ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ*          نوافل کی پابندی ایک مستحسن اور پسندیدہ عمل ہے، اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا بنیادی ذریعہ ہے، کل قیامت کے دن یہ نوافل فرائض کا متبادل ہو جائیں گے، سنن ونوافل میں سب سے افضل قیام اللیل یعنی تہجد کا پڑھنا ہے، پھر سب سے افضل فجر کی دو رکعت سنت جماعت سے پہلے ادا کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سفر وحضر میں اس سنت کے پڑھنے کا غیر معمولی التزام کرتے تھے، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، "لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ"(صحیح بخاری:1169) فجر سے پہلے دو رکعت سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی نوافل کا شدید اہتمام نہیں کیا ہے-       اس روایت سے فجر کی سنت کی اہمیت کا پتا چلتا ہے، لہذا ہمیشہ فجر سے پہلے دو رکعت سنت کا اہتمام کرنا چاہیے، اور اگر کبھی لیٹ ہو جائے اور مسجد پہنچنے پر جماعت کھڑی ہو

تراویح کی نماز میں قرآن کیسے پڑھنا چاہیے؟؟

 تراویح کی نماز میں قرآن کیسے پڑھنا چاہیے؟؟ بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين *ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ*          قرآن اللہ کا کلام ہے، جو پیارے نبی پر نازل ہوا، ماہ رمضان سے اس کے نزول کا آغاز ہوا، اور یہ قرآن آہستہ آہستہ تھوڑا تھوڑا وقفے وقفے سے نازل ہوتا رہا، یہاں تک کہ تیئیس سالہ نبوت کی مدت میں (نزول قرآن کے اعتبار سے) قرآن پائے تکمیل کو پہنچا-        قرآن کا پڑھنا یا پڑاھنا نہایت ہی قابل رشک اور مبارک عمل ہے، اور ماہ رمضان میں قرآن کا پڑھنا اور پڑاھنا یہ تو اعلی درجہ کا نیک کام ہے، کیونکہ قرآن کا رمضان سے بڑا گہرا ربط ہے، یہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے، ہمارے اسلاف اس ماہ میں قرآن پاک کی تلاوت کا غیر معمولی اہتمام کرتے تھے، خود پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہر سال ماہ رمضان میں مکمل قرآن جبرئیل امین کو سننے اور سنانے کا اہتمام فرماتے تھے مگر جس سال آپ کی وفات ہوئی آپ نے دو مرتبہ قرآن کا دور جبرئیل امین کو سنایا تھا- قارئین کرام! قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی بڑی فضیلت ہے، لیکن یہ بات یاد رہے کہ قرآن پڑھنے کا فائدہ اور ثواب اسی کو ملے گا جو قرآن پڑھنے کے آ

اہل حدیث کیا ھے اور کون ھیں "؟

اہل حدیث کیا ھے اور کون ھیں "؟ یہ دو لفظوں کا مرکب ہے: (۱) اہل (۲) حدیث اہل کا معنی والا۔ حدیث کا معنی بات اور گفتگو۔ اصطلاحاً: محدثین کی اصطلاح میں حدیث ہی اس قول فعل یا تقریر کوکہتے ہیں جو رسول ﷺ کی طرف منسوب ہو۔(القاموس الوحید) نبی کریم ﷺ کی بات کے علاوہ اللہ کے کلام قرآن مجید کو بھی حدیث کہا جاتا ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (اللّٰہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ)(الزمر۔23) ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے بہترین حدیث نازل فرمائی ہے۔ پتہ چلا کہ(قرآن و حدیث‘‘ ان دونوں کو مشترکہ طور پر ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے۔ اہل حدیث کا معنی قرآن و حدیث والا۔یعنی قرآن و حدیث پر عمل کرنے والا۔ 📌 *اہل حدیث کی ابتداء*📌 نبی کریم ﷺ کی زندگی کے آخری ایام میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر وادی منٰی میں خلفاء اربعہ، عشرۃ مبشرہ، حفاظ قرآن ، کاتبین وحی و دیگر ہزاروں صحابہ کے عظیم الشان مجمع کو تلقین کرتے ہوئے کہا تھا’’تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسّکْتُمْ بِہِمَا کِتَابَ اللّٰہ وَسُنَّۃِ نَبِیِّہِ‘‘ ترجمہ:میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے

مشہور دعائے تراویح کا مختصر جائزہ

مشہور دعائے تراویح کا مختصر جائزہ          ماہ رمضان میں بعد نماز عشاء تراویح کی نماز مع وتر گیارہ رکعت مسنون ہے، پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس نماز کی ادائیگی کی بڑی ترغیب دی ہے، اور اس کو گناہوں کی مغفرت کا سبب بتایا ہے، لہذا اس نماز کا مسلمانوں کو غیر معمولی اہتمام کرنا چاہیے، الحمدللہ کثیر تعداد میں مسلمان اس نماز کی ادائیگی میں فرائض سے زیادہ توجہ دیتے ہیں، لیکن صحیح مانو میں تراویح کی نماز مع وتر گیارہ رکعت پڑھنے والے ہی سنت کے اصل پیروکار ہوتے ہیں، حدیث رسول کے سچے شیدائی ہوتے ہیں، وہ اکثر وہی کرتے ہیں جو صحیح احادیث سے ثابت ہو، وہ ہمیشہ بدعات وخرافات سے کوسوں دور بھاگتے ہیں، لیکن ہمارے وہ بھائی جو بیس رکعت تراویح کو اصل سنت سمجھنے والے ہیں ان کے یہاں سنت کا کوئی خاص التزام اور احترام نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ بدعات وخرافات کے عمیق کھائی میں غرق ہیں، بطور مثال ماہ رمضان کے قیام تراویح میں آپ اہل تقلید کے یہاں یہ چیز ضرور دیکھیں گے کہ وہ ہر چار رکعت کے بعد قدرے اطمینان کرتے ہیں، اور اسی دوران ایک دعا پڑھنے کا غیر معمولی اہتمام کرتے ہیں، اور اگر جن کو یاد نہ ہو تو ان

قرآن دیکھ کر تراویح کی نماز پڑھا سکتے ہیں؟

قرآن دیکھ کر تراویح کی نماز پڑھا سکتے ہیں؟         ماہ رمضان میں تراویح کی نماز پڑھنا سنت ہے، اس نماز کے پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے، اور بہتر ہے کہ پورے رمضان کی تراویح میں ایک قرآن مکمل ختم کیا جائے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی اچھا حافظ نماز پڑھائے، البتہ اگر حافظ نہ ملے تو کوئی صاحب تقوی وبزرگ شخص قرآن دیکھ کر نماز تراویح پڑھا سکتا ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں یہ روایت تعلیقاََ ذکر کی ہے کہ "وَكَانَتْ عَائِشَةُ يَؤُمُّهَا عَبْدُهَا ذَكْوَانُ مِنَ الْمُصْحَفِ"(صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب إِمَامَةِ الْعَبْدِ وَالْمَوْلَى) عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ذکوان رحمہ اللہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وغیرہ کو مصحف دیکھ کر نماز پڑھایا کرتے تھے-         اس روایت کی شرح میں مشہور شارح علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں"استدل به على جواز قراءة المصلي من المصحف، ومنعه منه آخرون لكونه عملا كثيرا في الصلاة"(فتح الباری:185/2) اسی روایت سے استدلال کیا گیا ہے کہ مصلی کا قرآن دیکھ کر پڑھنا جائز ہے، مگر بعض لوگوں نے اس سے منع کیا ہے، اس وجہ

Part 2 بیس رکعت تراویح پڑھنے والوں کے لیے چند نصیحتیں

بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين Part 2 بیس رکعت تراویح پڑھنے والوں کے لیے چند نصیحتیں *ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ*               تراویح رمضان المبارک کی ایک عظیم الشان عبادت ہے، تراویح گناہوں کی مغفرت کا باعث ہے، جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایابا"مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ"(صحیح بخاری:37) جو ایمان واخلاص اور اجروثواب کی امید کے ساتھ رمضان المبارک میں قیام کرے اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں-         تراویح کا مسئلہ ہر رمضان میں موضوع بحث رہتا ہے، آٹھ اور بیس کے متعلق امت مسلمہ میں جو سر پھٹول جاری ہے لگتا ہے کہ یہی رمضان کا سب سے بھاری سبق اور عظیم پیغام ہے جسے دہرانے کی ہر سال ضرورت پیش آتی ہے، بیس پڑھنے والے آٹھ پڑھنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگ چپکے سے آٹھ پڑھ کر دبے پاؤں مسجد سے باہر نکل آتے ہیں، جب کہ تراویح نفل نماز ہے، اور الحمدللہ ہم یہ توسع رکھتے ہیں کہ اگر نفل سمجھ کر بیس رکعت تراویح پڑھ لے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے گرچہ بیس رکعت

بیس رکعت تراویح پڑھانے والوں کو چند نصیحتیں

بیس رکعت تراویح پڑھانے والوں کو چند نصیحتیں *ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ*             نماز تراویح نفل عبادت ہے، اس میں اتنی گنجائش ہے کہ حسب وسعت وطاقت دو، چار، اٹھ، دس، یا بیس رکعت تراویح کی نماز پڑھی جائے، کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا"صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً، تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى"(صحیح بخاری:990) رات کی نماز (تہجد اور تراویح) دو دو رکعت ہے، پس جب تم میں سے کسی کو صبح نمودار ہونے کا خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لے یہ اس کے لیے وتر ہو جائے گی جو اس نے نماز ادا کی ہے-        لہذا نفل سمجھ کر بیس رکعت تراویح ادا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، البتہ سنت گیارہ رکعت ہی ہے، مگر جو لوگ بیس پڑھانے والے ہیں، ہم ان سے یہ کہنا چاہیں گے کہ آپ بیس رکعت شوق سے پڑھائیں آپ کو یہ عبادت مبارک ہو، لیکن ہم نے اکثر جو بیس رکعت کا مشاہدہ کیا ہے وہ آپ کی خدمت میں بطور نصیحت عرض کررہے ہیں-      اول: بیس رکعت تراویح رسول سے ثابت نہیں ہے، لہذا بیس رکعت پڑھانے کو بہت بڑی سعادت نہ

تراویح کتنی رکعت پڑھنی چاہیے

بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين            تراویح کتنی رکعت پڑھنی چاہیے *ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ*                 تراویح یہ نفلی نماز ہے جو بعد نماز عشاء ادا کی جاتی ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ماہ رمضان میں تراویح کی نماز باجماعت صحابہ کرام کو تین یا چار رات پڑھائی ہے، اور آپ کا معمول یہ رہا ہے کہ آپ قیام اللیل رمضان ہو غیر رمضان گیارہ رکعت مع وتر ادا کرتے تھے جیسا امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں باب قائم کیا ہے، بَابُ قِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ: رمضان وغیرہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے قیام اللیل (تہجد وتراویح ) کا بیان- اور اسی باب میں یہ روایت نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم گیارہ رکعت پڑھتے تھے، لیجیے جناب حدیث ملاحظہ فرمائیں، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَ

موٹا چاند دیکھ کر طرح طرح کی باتیں کرنے والوں

موٹا چاند دیکھ کر طرح طرح کی باتیں کرنے والوں کے لئے........ تحریر: نثارمصباحی امام طبرانی المعجم الاوسط میں ایک "حدیثِ حسن" روایت فرماتے ہیں : اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : من اقتراب الساعة أن يرى الهلال قبلا فيقال لليلتين، وأن تتخذ المساجد طرقاً، وأن يظهر موت الفجأة. امام مناوی "التنویر في شرح الجامع الصغیر" میں اس کی شرح میں فرماتے ہیں: (من اقتراب الساعة أن يرى الهلال قبلاً) بفتح القاف والباء الموحدة أي ساعة ما يطلع، لعظمته ووضوحه من غير أن يتطلب. (فيقال: لليلتين) أي يقول من رآه: إنه لليلتين وما هو إلا لليلة. یعنی قیامت کی نشانی ہے کہ نیا چاند نکلتے ہی اپنے موٹے اور واضح ہونے کی وجہ سے بغیر تلاش کیے فورا نظر آ جائے گا. تو کہا جائے گا کہ یہ دو راتوں کا ہے!!! (حال آں کہ وہ دو رات کا نہیں بلکہ اُسی رات کا بالکل نیا چاند ہوگا) نیز قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ مسجدوں کو راستہ بنا لیا جائے گا. نیز اچانک ہونے والی موت کی کثرت ہوگی. امام طبرانی المعجم الصغیر میں ایک "حدیثِ صحیح" روایت فرماتے ہیں : من اقتراب الساعۃ انتفاخ

ماہ رمضان سے ایک دو روز پہلے روزہ نہ رکھیں

بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين  ماہ رمضان سے ایک دو روز پہلے روزہ نہ رکھیں                     ماہ شعبان یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں بندوں کے اعمال اللہ کے یہاں پیش ہوتے ہیں، اسی مناسب سے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ماہ شعبان میں نفلی روزوں کا غیر معمولی اہتمام کرتے تھے، بنابریں ماہ شعبان میں نفلی روزے رکھنا نہایت محبوب اور پسندیدہ عمل ہے، لیکن شعبان کی انتہا یعنی اختتام پر رمضان کی مشاقی کے طور پر روزہ رکھنا شرعاََ منع ہے، لیکن اگر جو پہلے سے روزہ رکھنے کا عادی ہو تو وہ روزہ رکھ سکتا ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا"لاَ يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ، إِلاَّ أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ فَلْيَصُمْ ذَلِكَ الْيَوْمَ"(صحیح بخاری:1914) خبردار تم سے کوئی رمضان المبارک سے ایک یا دو روز قبل روزہ رکھنے کی کوشش نہ کرے، ہاں اگر کوئی شخص اس دن پہلے سے روزہ رکھتے چلا آرہا تھا تو وہ اس دن روزہ رکھ لے-         اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ شعبان کے خاتمہ پر روزہ رکھنا منع ہے، لیکن اگر کوئی پہلے سے نفلی روزے کا پ

کیا پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنا درست ہے؟

کیا پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنا درست ہے؟             بلاشبہ ماہ شعبان یہ وہ مہینہ ہے جس میں بکثرت روزہ رکھنا مسنون اور مستحب عمل ہے، کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ بکثرت روزہ رکھا کرتے تھے، جیسا کہ  صحیح بخاری کی مشہور روایت میں ہے، حدیث ملاحظہ کیجیے، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ لاَ يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ لاَ يَصُومُ. فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلاَّ رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ"(صحيح بخاری:1969) حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہنے لگتے تھے کہ آپ افطار نہیں کریں گے اور آپ افطار کرتے تھے یہاں تک کہ ہم کہنے لگتے کہ آپ روزہ نہیں رکھیں گے، اور میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائ

شب برات کی حقیقت

               شب برات کی حقیقت          پندرہویں شب کو بعض لوگ شب برات کہتے ہیں، لیکن یہ نام عقلاً وشرعاََ غلط ہے، کیونکہ یہ نام شرعی نہیں شیعی ہے یعنی فرقہ شیعہ کا رکھا ہوا ہے، لوگ اس دن کو بہت بڑا تہوار تصور کرتے ہیں، پھر اسی تہوار کی مناسبت سے حلوہ پوڑی پکاتے ہیں، اچھے اور لذیذ پکوان بنا کر فاتحہ دلاتے ہیں، پھر اسے غریبوں اور مسکینوں پر ایصال ثواب کی نیت سے کھلاتے اور پلاتے ہیں، گھروں اور قبروں کو مکمل صاف ستھرا رکھتے ہیں، گھروں مکانوں دکانوں اور مسجدوں وغیرہ میں خوب چراغاں کرتے ہیں، بچے جوان سبھی دین اور عبادت سمجھ کر آتش بازی کرتے ہیں، دن میں روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر قیام کرتے ہیں، ہزار ہزار رکعتیں پڑھتے ہیں، مخصوص اور عجیب و غریب قسم کی نمازیں ادا کرتے ہیں، اپنے گھروں میں فوت شدہ لوگوں کی روحوں کی آمد کا عقیدہ رکھتے ہیں، پندرہویں شعبان کی شب میں قبروں کی خصوصی زیارت کرتے ہیں، وہاں قرآن خوانی کا اہتمام کرتے ہیں، یہ سارے اعمال پندرہویں شعبان کی بدعات وخرافات میں سے ہیں، اور شب برات کا دین اور سنت وشریعت سے ادنی بھی تعلق نہیں ہے، یہی وجہ ہےکہ آپ پوری کتب حدیث اور کتب سیر وتوار

آصفہ بانوں کے قاتلین تین بڑی سزاؤں کے مستحق ہیں

آصفہ بانوں کے قاتلین تین بڑی سزاؤں کے مستحق ہیں           موجودہ دور میں جس قدر بےحیائی اور بدکاری کا عروج ہے شاید کہ ماضی میں اس کی مثال موجود نہ ہو، اس وقت زناکاری پورے ملک کا ایک حساس مسئلہ بن گیا ہے، آئے دن عصمت دری اور اجتماعی آبروریزی کے واردات اور واقعات پیش آرہے ہیں، اب بڑھتی بےحیائی کچھ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے، ہم اس وقت ایسے بےحیائی کے واقعات سنتے سنتے بالکل پک چکے ہیں، واللہ ایسے ایسے حادثات ہیں جو رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں، دلوں کو دہلا دینے والے ہیں، ظالم اپنی ہوس اور شہوت کی پیاس بجھا بجھا کر بڑی بےرحمی اور بڑی بےدردی سے معصوم اور نابالغ بچیوں کا گلہ کاٹنے کے باوجود بھی شہر شہر آزاد گھومتا ہے، اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی ہمارے ذمہ داران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتا ہے، جب عوام کا سخت احتجاج ہوتا ہے، پبلک سڑک پر اتر آتی ہے، تب ایوانوں میں کھل بھلی مچلتی ہے، ذمہ داروں اور حکمرانوں کی آنکھیں کھلتی ہیں، اور ایسے ظالموں کو گرفتار کرنے کا فیصلہ لیا جاتا ہے، اس کے بعد مجرم کی گرفتاری تو ہو جاتی ہے لیکن اس کو سزا ملتی کہاں ہے، انصاف ہوتا ک

مسجد غمامہ ایک تعارف

          مسجد غمامہ ایک تعارف         مسجد نبوی مدینہ منورہ کے گیٹ نمبر چھ سے باہر مغربی سمت شارع السلام کی طرف نکلتے وقت ایک چھوٹا سا میدان ہے، جس کے بائیں طرف ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس کا نام مسجد غمامہ ہے، اسی کے سامنے یعنی داہنی جانب ایک بالکل چھوٹی سی مسجد ہے جس کو مسجد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہا جاتا ہے، یہ ہمیشہ بند رہتی ہے-         مسجد غمامہ کے متعلق یہ مشہور ہے کہ یہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استسقاء کی نماز ادا کی اور دعا ختم کرنے سے پہلے ہی بادل کا ایک ٹکڑا مدینہ پر سایہ فگن ہوا اور موسلا دھار بارش ہوئی، پھر اسی جگہ پر ترکی حکومت نے ایک مسجد تعمیر کی جس کا نام مسجد الغمامۃ رکھا، چونکہ عربی میں غمامہ بادل کے ٹکرے کو کہتے ہیں، اسی مناسبت سے اس کا نام  غمامہ رکھا گیا ہے، یہ مسجد ہر فرض نماز کے لیے کھولی جاتی ہے، لیکن اس مسجد میں نماز ادا کرنے کی کوئی خاص فضیلت نہیں ہے، یہ بھی عام مسجد کی طرح ہے، مگر افسوس کہ لوگ صرف یہ سمجھ کر یہاں خوب نمازیں ادا کرتے ہیں، سنن ونوافل اور فرائض کا خوب اہتمام کرتے ہیں، اور بالخصوص یہاں پر عورتوں کا ہجوم لگا رہتا ہے، کہ یہاں پر اللہ کے

اپنی بیٹیوں کی حفاظت کریں

    اپنی بیٹیوں کی حفاظت کریں                        اولاد اللہ کی عظیم نعمت ہیں، جن کی حفاظت وصیانت اور تربیت والدین کا ایک اہم فریضہ ہے، بچوں کے مقابلے میں بچیوں کی تربیت اور ان کی نگرانی بہت اہم اور حساس مسئلہ ہے، بچیوں کے متعلق والدین کو چاہیے کہ انہیں پردہ اور حجاب لگانے کی تاکید کریں، چست اور تنگ لباس پہننے سے دور رکھیں، گھر سے باہر جانے سے بچائیں، دکان وغیرہ پر نہ بٹھائیں، اپنے گھروں میں محارم کے علاوہ کسی بھی شخص کو نہ آنے دیں، گرچہ وہ اپنا دوست یا نوکر اور خادم ہی کیوں نہ ہو، اپنی بچیوں کو نصیحت کریں انہیں سمجھائیں، دینی تعلیم سے لیس کریں، ان کے دلوں میں اللہ کا خوف اور تقوی پیدا کریں، جہنم کی آگ سے ڈرائیں، اللہ کے سخت عذاب اور وعید سے آگاہ کریں، یہ چند احتیاطی تدابیر ہیں جن کو عملی جامہ پہنا کر ہم اپنی بچیوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں، اور اپنی بچیوں کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا سکتے ہیں، دنیا میں نیک ونام اور بلند مقام حاصل کر سکتے ہیں، مرنے کے بعد آخرت میں سرخروئی وکامیابی پا سکتے ہیں، اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کے مستحق بن سکتے ہیں، آپ نے فرمایا جو دو بچیوں

عورت کا سڑک پر اترنا ایک جائزه

          عورت کا سڑک پر اترنا ایک جائزہ                              عورت سماج ومعاشرہ میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے، عورت کے وجود سے انسان کی نسل جاری وساری ہے، عورت سے انسان کو عروج وترقی حاصل ہوتی ہے، انسان عورت ہی سے باپ بنتا ہے، الغرض بغیر عورت کے زندگی کی گاڑی بالکل سونی ہے-         عورت کا اسلام میں بڑا مقام ہے، چنانچہ اسلام نے عورتوں کو گھر کی ملکہ اور رانی قرار دیا ہے، رانی ہی نہیں بلکہ صالح اور پاکباز خاتون کو دنیا کی بیش بہا قیمتی اثاثہ وسرمایہ قرار دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ"(صحيح مسلم:3716) دنیا پونجی اور سرمایہ ہے، اور دنیا کی سب سے قیمتی سرمایہ پاکباز اور صالح خاتون ہے-       لہذا جیسے ہر قیمتی سامان کو ہر سلیم الطبع شخص پردے اور آڑ میں رکھتا ہے جیسے سونا چاندی ہیرا موتی جواہرات وغیرہ ٹھیک اسی طرح عورت کو بھی چھپا کر رکھنا چاہیے، اسے پردہ وحجاب میں رہنے کی تاکید کرنا چاہیے، یہی وجہ ہےکہ شریعت اسلامیہ نے عورتوں کا دائرہ کار اس کا گھر بتا دیا ہے یعنی اسلام نے عورت کو اپنے گھ

امام اوزاعی رحمہ الله کی خشیت الہی

*امام اوزاعی رحمہ الله کی خشیت الہی* 👈"ایک مرتبہ ایک عورت امام اوزاعی رحمہ اللہ کی بیوی کے ساتھ آئی، تو اس نے چٹائی کو بالکل گیلا پایا جس پر امام اوزاعی رحمہ اللہ نماز ادا کرتے تھے، چنانچہ اس نے ان کی اہلیہ سے کہا کہ ممکن ہے کہ بچے نے یہاں پر پیشاب کردیا ہو، تو ان کی اہلیہ نے فرمایا کہ ماجرا یہ نہیں ہے بلکہ یہ شیخ محترم کے آنسو کی پہچان اور علامت ہے جو کہ اپنے سجدے میں ہر روز صبح تک روتے ہیں- *(البدايةوالنهاية:لابن کثیر: ١٣/ ٤٤٨-٤٤٩)*

*دنیا کا سب سے قیمتی پانی*

       *دنیا کا سب سے قیمتی پانی*                    آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں جا کر کسی بھی صاحب ایمان سے پوچھیں کہ دنیا کا سب سے قیمتی پانی کونسا ہے؟ تو بچہ بچہ یہی جواب دے گا کہ وہ مبارک پانی زمزم ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے، زمزم یہ اللہ رب العالمین کی عظیم نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی ہے، زمزم کا نام سنتے ہی فوراً سیدنا ابراہیم، اسماعیل اور حضرت ہاجرہ علیھم الصلاۃ والتسلیم کی تاریخ اور ان کی بےمثال قربانیاں دل ودماغ میں گردش کرنے لگتی ہیں، اور جب ان کی تاریخ یاد آتی ہے تو آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں-        زمزم کی تاریخ بڑی قدیم ہے، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے فرزند ارجمند اسماعیل کو اللہ کے حکم سے مکہ مکرمہ میں چھوڑ کر چلے گئے اور پھر کچھ دنوں کے بعد حضرت اسماعیل سخت پیاسے ہوگئے تو حضرت ہاجرہ اپنے شیرخوار بچے کو پانی پلانے کے لیے بالکل بےتاب ہوگئیں، پانی کی تلاش میں صفا پہاڑی سے مروہ اور مروہ پہاڑی سے صفا چکر لگانے لگیں، لیکن کہیں پانی ندارد، مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا، بالآخر ناامید ہو کر اپنے بچے اسماعیل علیہ السلام کے پاس آئیں تو دیکھا کہ حض

عورت کی حکومت ایک عجیب حماقت*

*عورت کی حکومت ایک عجیب حماقت*                            عورت کا دائرہ کار اس کا گھر ہے، عورت اپنے گھر میں رہ کر اپنی اولاد کی دینی تربیت سے لیس کرے، اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ اور رانی قرار دیا ہے، عورت کو اس بات کی قطعاً اجازت نہیں ہے کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ چلے، مردوں کی مشابہت اختیار کرے، سرعام بازاروں کی زینت بنے، مشاعروں کے اسٹیج پر شعراء کے ساتھ ہم نشینی اختیار کرے، سیاست میں قدم رکھے، بزنس وتجارت میں بلا شرعی حدود وقیود مشارکت کرے، ہاں اگر شرعی اصولوں کی پابندی کرلے تو عورت تجارت کرسکتی ہے لیکن یہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ نے کمانے اور نان و نفقہ کا فریضہ شوہر کے سر پر رکھا ہے- قارئین کرام! عورت کا سیاست میں قدم رکھنا حماقت کی نشانی ہے، اسلام نے عورت کو یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ حکمرانی کرے، سیاسی امور کی انجام دہی میں بنفس نفیس شرکت کرے، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب ایرانی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے میں عورت نے جب حصہ لیا تو آپ نے اس کی ناکامی کی بددعا دی ہے،  اس کی دلیل صحیح بخاری کی یہ روایت ہے، "لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَ

سفر ایک عذاب ہے*

              *سفر ایک عذاب ہے*                             سفر کے معنی اجالے اور روشن ہونے کے ہوتے ہیں، چونکہ سفر سے انسانی عقل میں پختگی اور رسوخ پیدا ہوتا ہے، سفر کی تکلیفات ومشکلات سے انسان بہت سارے تجربات سے بہرور ہوتا ہے، سفر میں کبھی آزمائش اپنوں سے پہنچتی ہے اور کبھی غیروں سے، بہرکیف دونوں سے ملنے والی تکلیفیں بڑی شدید ہوتی ہیں، لہذا بنا ضرورت سفر نہ کریں، جب سفر کرنا ضروری اور لازمی ہو تبھی اہل خانہ سے جدا ہوں، اور جیسے ضرورت پوری ہو جائے، جیسے کام بن جائے فوراً اہل وعیال یعنی منزل کی طرف کوچ کرنے میں جلدی کرنا چاہیے، اس لیے کہ جب تک سفر میں رہیں گے کھانے پینے رہنے سہنے اور سونے کی تنگی وپریشانی میں رہیں گے، قدم قدم پر آزمائش کا مقابلہ کرنا پڑے گا، علاوہ ازیں شب و روز مالی خسارہ بھی ہو گا، بنابریں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر سے جلد واپس ہونے کی تاکید کی ہے، اس کی دلیل صحیح بخاری کی یہ حدیث ہے، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:"السَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنَ الْعَذَابِ، يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ طَعَامَهُ وَ

*مہمانوں کی ضیافت ایک عظیم عبادت*

*مہمانوں کی ضیافت ایک عظیم عبادت*                           مہمانوں کی عزت کرنا جہاں یہ فطری ضرورت ہے وہیں یہ ایک عظیم عبادت بھی ہے بشرطیکہ اسے دین اور شریعت کا حکم سمجھ کر ادا کیا جائے، ریا ونمود سے ہٹ کر اخلاص اور خلوص للہیت کے ساتھ انجام دیا جائے، کیونکہ ہر نیکی کی قبولیت میں اخلاص اور ایمان دونوں رکن رکین ہیں، مہمانوں کی عزت وتکریم کرنا، حسن اخلاق سے پیش آنا، اچھے سے اچھا کھلانا، رہنے رسہنے کا بہترین انتظام کرنا ہمارے دین کا بنیادی حصہ ہے، شریعت مطہرہ نے مہمانوں کی ضیافت اور خاطر داری کو ایمان کی مرکزی پہچان بتلائی ہے، مطلب یہ کہ اگر کسی کے ایمان کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے یہاں مہمان بن کر جائیے-        مہمان نوازی ایمان کی شناخت ہے، اس کی دلیل صحیح بخاری کی یہ روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ"(صحيح بخاری:6018) جو اللہ پر اور آ