بغير ولی کے شادی نہیں ہوسکتی ہے


          *بغير ولی کے شادی نہیں ہوسکتی ہے

*ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمیؔ محمدیؔ مہسلہ

             شادی نفس کی اہم ترین ضرورت ہے، بغیر شادی کے انسان ناقص اور اس کی زندگی بےسود ہے، شادی نفس اور قلب وجگر کی تسکین کا باعث ہے، شادی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، شادی انبیاء کی سنت ہے، شادی سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے، شرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے، شادی خیر وبرکت کی سواری ہے، الغرض شادی کی اتنی زیادہ اہمیت اور افادیت ہے جس کا کوئی منکر نہیں ہے-
       مگر یہ بات یاد رہے کہ ہر شادی خیر وعافیت کا مظہر نہیں بنتی ہے، وہی شادی خیر وبرکت کا باعث ہے جس میں کم خرچ ہو، شادی کا حقیقی لطف اور مزا اسی وقت ہے جب نکاح شرعی طریقے کے مطابق ہو-
      سوال یہ ہے کہ شرعی نکاح کیسے ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ولی اور گواہوں کی موجودگی میں دلہے سے مع مہر ایجاب وقبول کرانے کا نام نکاح ہے، نکاح میں ولی کا ہونا شرط ہے، بغیر ولی کے نکاح نہیں ہوگا، اسلامی شریعت میں ولی کے بغیر نکاح شرعی کا کوئی تصور نہیں ہے، جو شخص کسی لڑکی سے بغیر ولی کی اجازت سے شادی کرلے، یا اسی طرح کوئی لڑکی خود اپنا کورٹ میرج کرلے تو ایسا نکاح ازروئے شریعت ناجائز ہے، باطل ہے، حرام ہے، جیسا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا، فَإِنِ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ"(سنن ترمذی:1101/حسن صحيح)جو بھی عورت اپنی شادی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر کر لے، تو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اور اگر ایسی شادی (یعنی ولی کے بغیر) سے دخول بھی ہوجائے تو اس خاتون کے لیے مکمل مہر ہے، کیونکہ آدمی نے اس کی شرم گاہ کو حلال سمجھا ہے، اور اگر ولایت میں اختلاف ہو جائے تو بادشاہ وقت اورذمہ دار شخص ولی  ہوگا، (لیکن یہ ولی اس کا بنے گا) جس کا کوئی ولی اور ذمہ دار نہ ہو-
       یہ حدیث ولی کی اجازت کے بغیر ہونے والی شادی کی زبردست تردید کرتی ہے، اور یہ تعلیم دیتی ہے کہ لڑکی کے نکاح میں ولی یا اس کی جگہ ولی کا قائم مقام ہونا شرط ہے، بغیر ولی کے شادی ناجائز اور باطل ہے، اس حقیقت کو سمجھانے کے لیے آپ نے تاکیداََ تین مرتبہ فرمایا بغیر ولی کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے-
      مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج موجودہ سماج میں  بہت ساری شادیاں بغیر ولی کے منعقد ہو رہی ہیں، اور نکاح پڑھانے والا بھی پیسے کی لالچ میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح پڑھا دیتا ہے، اور ظالم یہ نہیں سمجھتا ہے کہ شرعاََ یہ ناجائز عمل ہے، سوچیے وہ شادی ہوئی ہی نہیں جس میں ولی نہ ہو، مگر لوگ عشق ومعاشقہ میں ڈوب کر کورٹ میرج کرتے ہیں اور کورٹ میرج میں لڑکی کا باپ کہاں حاضر رہتا ہے، وہ کہاں ایسے نکاح سے راضی ہوتا ہے، بیٹی گھر سے فرار ہوگئی، باپ کی عزت خاک میں مل گئی اور بیٹی اپنا نکاح خود اپنی مرضی سے کر رہی ہے، کیا کوئی باغیرت باپ اس جرم کو برداشت کر سکتا ہے، قطعاً نہیں-
     پھر بیٹی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے والدین کی ماتحتی میں رہے، باپ کی ولایت کو تسلیم کرے، اور بھول کر بھی کبھی اپنے ہاتھ کو کسی اجنبی نوجوان کے حوالے نہ کرے، والدین جہاں شادی کرائیں ہنسی خوشی رشتے کو قبول کرلے، اگر شوہر پسند نہ ہو اور اس پر ولی کا جبر ہو تو قاضی کو اس کی شکایت کرے، مگر ولی کے بغیر شادی نہ کرے، کیونکہ یہ شادی نہیں بربادی ہے، اس سے گھر آباد نہیں گھر برباد ہوگا، اولاد میں بگاڑ ہوگا، طلاق اور خلع کی نوبت آئے گی، لہذا ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس حساس مسئلہ کو سنجیدگی سے غور کریں، ولی کے بغیر ہونے والی شادی پر روک لگائیں، ایسی شادی میں شرکت نہ کریں، ولیمہ نہ کھائیں، اور لوگوں کو بتائیں کہ نکاح میں ولی کا ہونا شرط ہے، ولی کے بغیر نکاح باطل، حرام اور ناجائز ہے، اللہ ہمیں شرعی ضابطے کے مطابق نکاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین-    
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
     *ابوعبداللہ اعظمیؔ محمدیؔ مہسلہ*
*دوران سفر گھر سے مہسلہ کوکن، نزد برہان پور ریلوے اسٹیشن ایم پی*
24/06/2018

Comments

Popular posts from this blog

مسجد غمامہ ایک تعارف

Location of the Arabs

خود کشی کے اسباب اور سدباب