آصفہ بانوں کے قاتلین تین بڑی سزاؤں کے مستحق ہیں


آصفہ بانوں کے قاتلین تین بڑی سزاؤں کے مستحق ہیں

          موجودہ دور میں جس قدر بےحیائی اور بدکاری کا عروج ہے شاید کہ ماضی میں اس کی مثال موجود نہ ہو، اس وقت زناکاری پورے ملک کا ایک حساس مسئلہ بن گیا ہے، آئے دن عصمت دری اور اجتماعی آبروریزی کے واردات اور واقعات پیش آرہے ہیں، اب بڑھتی بےحیائی کچھ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے، ہم اس وقت ایسے بےحیائی کے واقعات سنتے سنتے بالکل پک چکے ہیں، واللہ ایسے ایسے حادثات ہیں جو رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں، دلوں کو دہلا دینے والے ہیں، ظالم اپنی ہوس اور شہوت کی پیاس بجھا بجھا کر بڑی بےرحمی اور بڑی بےدردی سے معصوم اور نابالغ بچیوں کا گلہ کاٹنے کے باوجود بھی شہر شہر آزاد گھومتا ہے، اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی ہمارے ذمہ داران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتا ہے، جب عوام کا سخت احتجاج ہوتا ہے، پبلک سڑک پر اتر آتی ہے، تب ایوانوں میں کھل بھلی مچلتی ہے، ذمہ داروں اور حکمرانوں کی آنکھیں کھلتی ہیں، اور ایسے ظالموں کو گرفتار کرنے کا فیصلہ لیا جاتا ہے، اس کے بعد مجرم کی گرفتاری تو ہو جاتی ہے لیکن اس کو سزا ملتی کہاں ہے، انصاف ہوتا کہاں ہے، آج تک مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اجتماعی آبروریزی اور زناکاری کرنے والے ایک نہیں دسیوں کے ساتھ منہ کالا کرنے والے پکڑے جاتے ہیں جو کہ زانی ہونے کے ساتھ قاتل بھی ہوتے ہیں پھر نتیجہ کیا نکلتا ہے دو چار مہینہ یا ہفتہ دس دن جیل میں رہے، رشوت دیے، ضمانت ملی وہاں سے رہائی ہوئی اور پھر آکر بالکل جری اور نڈر ہوکر زمین میں فتنہ اور فساد مچاتے ہیں، گویا ہم خود ایسے مجرموں اور زانیوں کو مواقع فراہم کرتے ہیں، لہذا ملک اور سماج کی سالمیت اور امن و امان کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ سخت قانون کی بالادستی ہو، زانیوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، بڑے جرم پر بڑی سزا کا نفاذ عمل میں آئے-
       قارئین کرام! ابھی حال ہی میں ہندوستان کے جموں شہر کھٹوعا کے اندر کنگ ریپ (اجتماعی آبروریزی کا سنگین حادثہ) پیش آیا ہے، واللہ اس واقعہ کو بیان کرنے میں زبان وقلم میں وہ قوت نہیں کی اسے لکھا اور بیان کیا جاسکے، آٹھ سالہ نابالغ بچی آصفہ بانوں کا اغواء، پھر مندر میں کنگ ریپ اور سنگدلی اور بےرحمی سے قتل، یہ ایسا دل سوز حادثہ ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے، اس حادثہ کے بعد ملک ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں ان زانیوں کے خلاف صدائیں بلند ہونے لگیں اور مجرموں کو سزائے موت یا پھانسی کی مانگ کی جانے لگی، مسلم ہو یا غیر مسلم سبھوں نے مل کر یہی احتجاج کیا کہ بچیوں اور بیٹیوں کی حفاظت کے لیے ہوس کے بچاریوں کو کچل کچل کر ہلاک کیا جائے، اس احتجاج میں بعض غیر مسلم ذمہ داران اور سیاسی ممبران نے یہاں تک بھی اپیل کی کہ زانیوں پر شرعی اور اسلامی سزا رجم نافذ کردیا جائے-
        اس موقع پر ہم حکومت ہند سے یہ درخواست کریں گے کہ آصفہ بانوں کے اہل خانہ کو مکمل انصاف ملنا چاہیے، اور ظالموں کو سخت سے سخت سزا ملنا چاہیے، اور وکیلوں اور ججوں کو چاہیے کہ فیصلہ کرنے سے پہلے اچھی طرح اپنے دل ودماغ میں یہ بات بٹھا لیں کہ آصفہ بانوں کے قاتلین تین بڑی سزاؤں کے مستحق ہیں، اول : اغواء - دوم : اجتماعی زنا - سوم : قتل -
   لہذا ایسے مجرموں کو ان کے تینوں جرائم کے مطابق مکمل سزا ملنا چاہیے یہی عدل و انصاف کا تقاضا بھی ہے، اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہماری بہن بیٹیوں کی حفاظت فرمائے آمین
  ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
        

Comments

Popular posts from this blog

مسجد غمامہ ایک تعارف

Location of the Arabs

خود کشی کے اسباب اور سدباب