جماعت چھوڑ کر فجر کی سنت پڑھنا صحیح ہے؟
جماعت چھوڑ کر فجر کی سنت پڑھنا صحیح ہے؟
بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين
*ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ*
نوافل کی پابندی ایک مستحسن اور پسندیدہ عمل ہے، اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا بنیادی ذریعہ ہے، کل قیامت کے دن یہ نوافل فرائض کا متبادل ہو جائیں گے، سنن ونوافل میں سب سے افضل قیام اللیل یعنی تہجد کا پڑھنا ہے، پھر سب سے افضل فجر کی دو رکعت سنت جماعت سے پہلے ادا کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سفر وحضر میں اس سنت کے پڑھنے کا غیر معمولی التزام کرتے تھے، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، "لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ"(صحیح بخاری:1169) فجر سے پہلے دو رکعت سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی نوافل کا شدید اہتمام نہیں کیا ہے-
اس روایت سے فجر کی سنت کی اہمیت کا پتا چلتا ہے، لہذا ہمیشہ فجر سے پہلے دو رکعت سنت کا اہتمام کرنا چاہیے، اور اگر کبھی لیٹ ہو جائے اور مسجد پہنچنے پر جماعت کھڑی ہو تو ڈائریکٹ جماعت میں داخل ہوجانا چاہیے، اور پھر نماز کے بعد دو رکعت پڑھ لینا چاہیے، جیسا کہ ایک صحابی رسول مسجد میں تاخیر سے پہنچے، اور فجر کی سنت نہ پڑھ سکے اور ڈائریکٹ جماعت میں شامل ہو گئے، پھر نماز پڑھنے کے بعد دو رکعت پڑھ لیے، رسول نے ان سے کہا کہ فجر کی دو ہی رکعت ہے، یہ کونسی ابھی نماز پڑھے ہو، انہوں نے کہا کہ میری دو رکعت فجر کی سنت چھوٹ گئی تو ابھی ادا کیا ہوں، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سنا تو آپ خاموش ہو گئے (سنن ابوداؤد:1267/صحيح )
اس روایت سے صاف معلوم ہوا کہ اگر فجر کی جماعت کھڑی ہو تو جماعت میں فوراً شامل ہو جانا چاہیے، جماعت کے پیچھے سنت نہیں پڑھنا چاہیے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فجر میں بہت سارے لوگ تاخیر سے آتے ہیں، اور جماعت کے پیچھے فجر کی سنت پڑھنے لگتے ہیں، یہ عجیب حماقت کی بات ہے کہ فرض نماز کھڑی ہو اور اس کو چھوڑ کر سنت اور نفل نماز پڑھی جائے، ارے بھائی فجر کی سنت کی اہمیت کتنی بھی زیادہ ہو مگر وہ فرض نماز اور جماعت سے کمتر ہے، اس لیے جب جماعت کھڑی ہو تو سنت چھوڑ چھاڑ کر فوراً جماعت میں داخل ہوجانا چاہیے، اور فرض جماعت کے پیچھے سنت نہیں پڑھنا چاہیے، کیونکہ ایسی نماز مردود ہے، جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا"إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ"(صحیح مسلم:1678) جب نماز کھڑی ہو جائے تو اس فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہے، یعنی کوئی نماز قبول نہیں ہوتی ہے-
ہمارے مقلدین بھائی کہتے ہیں کہ جماعت جب کھڑی ہو گئی ہو تو اگر رکعت چھوٹنے کا خوف نہ ہو تو دو رکعت پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، لہذا آپ مقلدین کو دیکھیں گے کہ وہ رکعت اور جماعت چھوڑ کر فجر کی سنت ادا کرنے میں فخر اور سعادت سمجھتے ہیں، یہی اہل حدیثوں سے کہتے ہیں کہ جب قرآن پڑھا جائے تو چپ رہو اور غور سے قرآن سنو اور خود قرآن کی قرات اور جماعت کے ہوتے ہوئے سنت پڑھتے ہیں، اور جماعت میں شامل ہو کر بغور قرآن نہیں سنتے ہیں، ایسے لوگ بیک وقت تین بھیانک غلطیاں کرتے ہیں، اول جماعت چھوڑ دیتے ہیں، دوم قرآن نہیں سنتے ہیں، جماعت کے پیچھے سنت پڑھتے ہیں، جب کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صاف فرمایا ہے کہ جو شخص فرض جماعت کے ہوتے ہوئے کوئی اور سنت نفل ادا کرے تو سرے سے اس کی نماز ہی نہیں ہوتی ہے (صحیح مسلم :1678)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ فجر کی سنت کی بڑی اہمیت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سنت کو کبھی بھی ترک نہیں کیا ہے، یہ سنت فجر دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں سے بہتر وبرتر ہے، لہذا اس سنت کی پابندی کی سخت ضرورت ہے، لیکن جب جماعت کھڑی ہو جائے تو سنت چھوڑ کر فجر کی جماعت میں مل جانا چاہیے اور جماعت کے بعد سنت پڑھ لینا چاہیے، جماعت چھوڑ کر سنت پڑھنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے، جماعت کے پیچھے فجر کی سنت ادا کرنا انتہائی احمقانہ اور جاہلانہ کام ہے، سنت کی صریح خلاف ورزی کرنا ہے، اپنے فرض اور سنت دونوں کو ضائع کرنا ہے، دعا ہے رب العالمين سے کہ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی مبارک سنتوں کے مطابق عمل پیرا ہونے کی سعادت نصیب فرمائے آمین-
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*ابوعبداللہ اعظمی محمدی مہسلہ*
*مقیم حال آبائی گاؤں مصرپور اعظم گڑھ*
02/06/2018
Comments
Post a Comment