عورت کا سڑک پر اترنا ایک جائزه
عورت کا سڑک پر اترنا ایک جائزہ
عورت سماج ومعاشرہ میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے، عورت کے وجود سے انسان کی نسل جاری وساری ہے، عورت سے انسان کو عروج وترقی حاصل ہوتی ہے، انسان عورت ہی سے باپ بنتا ہے، الغرض بغیر عورت کے زندگی کی گاڑی بالکل سونی ہے-
عورت کا اسلام میں بڑا مقام ہے، چنانچہ اسلام نے عورتوں کو گھر کی ملکہ اور رانی قرار دیا ہے، رانی ہی نہیں بلکہ صالح اور پاکباز خاتون کو دنیا کی بیش بہا قیمتی اثاثہ وسرمایہ قرار دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ"(صحيح مسلم:3716) دنیا پونجی اور سرمایہ ہے، اور دنیا کی سب سے قیمتی سرمایہ پاکباز اور صالح خاتون ہے-
لہذا جیسے ہر قیمتی سامان کو ہر سلیم الطبع شخص پردے اور آڑ میں رکھتا ہے جیسے سونا چاندی ہیرا موتی جواہرات وغیرہ ٹھیک اسی طرح عورت کو بھی چھپا کر رکھنا چاہیے، اسے پردہ وحجاب میں رہنے کی تاکید کرنا چاہیے، یہی وجہ ہےکہ شریعت اسلامیہ نے عورتوں کا دائرہ کار اس کا گھر بتا دیا ہے یعنی اسلام نے عورت کو اپنے گھر کی چاردیواری میں رہ کر ایک مثالی خاتون، مثالی ماں، مثالی بیوی بننے کا مکلف بنایا ہے، اپنے گھر میں رہ کر اپنے بال بچوں کی دیکھ ریکھ، تعلیم وتربیت، اور اپنے گھر کے سامان کی دیکھ بھال کا ذمہ دار بنایا ہے، اسی اصلاح وتربیت اولاد کی خاطر عورت کو جہاد اور معاش سے بالکل فارغ البال رکھا ہے، عورت کی تخلیق اس مقصد کے لیے نہیں ہوئی ہے کہ وہ بازاروں دکانوں ٹھیٹروں پارکوں اور مشاعروں کی زینت بنے، مردوں کی امامت کرے، حکومت وسیاست کے میدان میں قدم رکھے، بزنس وتجارت میں مردوں کے شانہ بشانہ چلے، بغیر کسی عذر کے مردوں کے ساتھ ملازمت اور نوکری کرے-
قارئین کرام! عورت کی زینت اور عافیت وسلامتی اسی میں ہے کہ وہ اپنے گھر میں رہے، حتی کہ نماز جیسی اہم عبادت کی انجام دہی کے لیے بھی گھر میں ٹھہری رہے، گرچہ مسجد میں نماز پڑھنا جائز ضرور ہے لیکن گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے، مگر افسوس صد افسوس آج عورتیں بےحجاب ہورہی ہیں، گھر سے بےنقاب گلی گلی نگر نگر شہر شہر گھوم پھر رہی ہیں، حد تو یہ ہے کہ آئے دن ہمارے ملک ہندوستان میں عورتیں سڑکوں پر اتر کر اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں، حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہیں، راستہ روک کر آنے جانے والوں کو اذیت پہنچاتی ہیں، اس پر ستم یہ کہ یہ ساری کاروائی علماء اور اسلامی تنظیمی کے ماتحت سرانجام پارہی ہیں، عورتوں کو ریلی میں شریک کرنے میں کچھ نام نہاد مولوی اس کی وکالت کر رہے ہیں، یہی نادان اپنی عورتوں کو مسجد میں آنے کو فتنہ قرار دیتے ہیں، صریح سنت کا گلا گھونٹتے ہیں، لیکن مظاہرہ کرنے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کی حفاظت و حمایت میں ریلی نکالنے کے لیے اپنی بہن اور بہو کو شرکت کی دعوت دیتے ہیں، اور ان کو ان کے گھروں سے نکالتے ہیں، ایسے قاعدین کو چلو بھر پانی میں ڈوب کر مر جانا چاہیے-
بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دینی مزاج کو اچھی طرح سمجھیں، شریعت کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں، اپنی عورتوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید کریں، خواہ مخواہ ریلی ومظاہرہ میں شرکت کرنے سے بچائیں، دعاہےرب العالمین سے کہ ہم سبھوں کو باغیرت اور باحیا بنائے آمین یا رب العالمین-
Comments
Post a Comment