لڑکیوں کی وراثت ڈکارنے والے حرام خور

لڑکیوں کی وراثت ڈکارنے والے حرام خور

تحریر: شمس الرب خان
======

تحریر کا عنوان کچھ زیادہ ہی سخت ہے؟ مجھے بھی معلوم ہے! لیکن میں نے جان بوجھ کر یہ عنوان لگایا ہے کیونکہ کبھی کبھی کچھ خبیث عادتیں اس طرح پختہ ہوجاتی ہیں کہ نرم لہجے کام ہی نہیں کرتے۔ دوسری بات یہ کہ اگرچہ عنوان سخت ہے لیکن سچ ہے۔ اور سچ سخت نہیں ہوتا۔ ہمارے اندر کا شیطان اسے سخت محسوس کراتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ جب حرام خوری کر رہے ہیں تو حرام خور ہی کہا جائے گا، نا! حرام خوری بند کردیں، کوئی نہیں کہے گا۔
دیکھیے، یہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہمارے سماج میں لڑکیوں کو ان کے حق وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ باپ کی جائیداد کے بٹوارے کے وقت صرف لڑکوں کا حصہ ہی لگایا جاتا ہے اور لڑکیوں کو پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی جاتی۔ یہ اسلامی شریعت کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے اور اللہ و رسول کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس گناہ عظیم میں عوام تو عوام علماء بھی ملوث ہیں۔ ہاں، یقینا سماج میں اللہ کے کچھ برگزیدہ بندے اب بھی ہیں جو وراثت میں لڑکیوں کو ان کا حق دیتے ہیں، لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور وہ مستثنی کے درجے میں ہیں۔
لڑکیوں کو ان کے حق وراثت سے محروم رکھنے کے لیے کچھ حرام خوروں نے عجب غضب کے بہانے تراش لیے ہیں۔ مثلا کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ لڑکیوں کی شادی میں زیادہ خرچ آتا ہے اور ان کو جہیز میں بہت سارا سامان دینا پڑتا ہے، اس لیے شادی اور جہیز کا خرچ ان کے حق وراثت کو ختم کردیتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں خباثت اور شیطانی کی انتہا! ایک تو جہیز لینا دینا خود شریعت کے احکام کی خلاف ورزی ہے۔ دوسرے، تھوڑا موڑا کم ہی سہی لیکن لڑکے کی شادی پر بھی خرچ بیٹھتا ہے لیکن اس کو بہانہ بنا کر لڑکوں کو حق وراثت سے محروم یا ان کے حق وراثت میں کمی نہیں کی جاتی۔ تیسرے، شادی پر چاہے جتنا خرچ آئے، اس سے حق وراثت ذرہ برابر بھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ یہ شوشہ چھوڑنے والوں کو شرم کرنی چاہیے اور اللہ سے توبہ واستغفار کرنی چاہیے کہ کہیں شریعت اسلامیہ سے بغاوت کی پاداش میں انہیں عذاب الہی نہ دبوچ لے: "فليحذر الذين يخالفون عن أمره أن تصيبهم فتنة أو يصيبهم عذاب أليم." (القرآن الکریم)
کچھ لوگ ایک دوسری شیطانی دلیل دیتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ لڑکی  شادی کے بعد اپنے شوہر کے گھر چلی جاتی ہے اور اپنے باپ کی جائیداد میں اس کا کوئی حق نہیں رہتا ہے سوائے وراثت کے۔ اب وہ لڑکی اپنے مائیکے آتی جاتی رہتی ہے اور اس پر خرچ آتا ہے۔ اس کے آنے جانے، رہنے پر جو خرچ آتا ہے وہ اس کے حق وراثت سے پورا ہوتا رہتا ہے یہانتک کہ اس کا حق وراثت ختم ہو جاتا ہے۔ شیطانیت کی انتہا اس کو کہتے ہیں! بیٹی، بہن مہمان بن کر آئے تو اس کا خرچ بھی جوڑا جا رہا ہے۔ یہ شریعت اسلامیہ کے احکام کے خلاف تو ہے ہی، انسانیت سے بھی گری ہوئی چیز ہے۔ اس طرح کی دلیلیں کوئی کم ظرف اور انتہائی نیچ شخص ہی دے سکتا ہے۔
ایک عجوبہ اور دیکھنے اور سننے میں آیا ہے۔ کچھ لوگ وراثت کی تقسیم کے وقت لڑکیوں کا حصہ تو نہیں لگاتے، البتہ بعد میں اندازا کچھ رقم اس کو دے دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح نہ صرف یہ کہ وہ اس کے حق وراثت کو ادا کر رہے ہیں بلکہ اس پر احسان بھی کر رہے ہیں۔ یہ سراسر غلط ہے اور حق تلفی کے چور دروازوں میں سے ایک ہے۔ چَوْنَھر کہیں کے! سیدھی سی بات ہے، اگر لڑکیوں کو ان کا حق وراثت دینا ہے، تو باپ کی جائیداد کی تقسیم کے وقت ہی ان کا حصہ شریعت کے ذریعہ مقرر کردہ اصولوں کے مطابق متعین کر دو اور انہیں ان کا حصہ بلا کم و کاست دے دو۔ ادھر ادھر کی جگلری کر کے لوگوں اور خود کو تو بیوقوف بنا سکتے ہو لیکن اس اللہ سمیع و بصیر کی پکڑ سے خود کو نہیں بچا سکتے جو ہر چیز سے واقف ہے۔
مجرم بھی سمجھ رہا ہے کہ وہ جرم کر رہا ہے اور وہ اس جرم کی سزا بھی سمجھ رہا ہے، پھر بھی وہ اس پر اصرار کیے جا رہا ہے۔ صورتحال ایسی ہو اور مجرم فرد نہ ہو کر پورا سماج ہو تو یہ اللہ کے غضب کو نیوتا دینے کے مترادف ہے۔ کسے معلوم ہے، ہوسکتا ہے کہ اللہ رب العالمین کا غضب ہم پر اتر رہا ہو۔ اس کا غضب اترنے کی کئی شکلیں ہیں۔ ہماری یہ ذلت و خواری، یہ در بدر کا بھٹکنا، یہ بے مائیگی، یہ شکست در شکست، یہ بے بسی، یہ لاچاری، اللہ کا غضب نہیں تو اور کیا ہے؟!
لڑکیوں کا حق وراثت ہڑپنے والے یہ جان لیں کہ وہ حقوق العباد کو ہڑپ رہے ہیں۔ اور حقوق العباد کے تعلق سے شریعت اسلامیہ کے اس بنیادی حکم سے ہم سبھی واقف ہیں کہ حقوق العباد میں کوتاہی کی معافی متاثرین کی معافی کے ساتھ مشروط ہے۔
اس لیے آئیے ہم سب اپنا محاسبہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہم سے یہ سنگین جرم کیسے سرزد ہو رہا ہے۔ آپ دیکھیں گے تو پائیں گے کہ آپ کے دادا کی جائیداد کی تقسیم کے وقت آپ کی پھوپھیوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے باپ کی جائیداد میں حرام کی آمیزش ہے۔ پہلی فرصت میں اس سے چھٹکارا پائیں اور اپنی پھوپھیوں کے حصہ کو ان کے حوالے کردیں۔ آپ غور کریں گے تو پائیں گے کہ آپ کے باپ کی جائیداد کی تقسیم کے وقت آپ کی بہنوں کو ان کا حق وراثت نہیں ملا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی بہنوں کی حق تلفی ہوئی ہے۔ آج ہی حساب کتاب کیجیے اور ان کو ان کا حصہ دے کر خود کو حرام خوری سے بچالیں۔ یہ کام جنگی پیمانے پر کریں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کو اسی حق تلفی کی بنا پر سزا ہو رہی ہو اور اس حق تلفی کا خاتمہ کر کے ہم اس کی سزا کے خاتمہ کا باعث بن جائیں۔
حقوق کی ادائیگی سب سے پہلے اور سب سے اہم ہے۔ حقوق کی ادائیگی سے آپ کے مال میں کمی نہیں ہوگی بلکہ اس میں برکت ہوگی۔ آپ کو حرام مال سے چھٹکارا پانے اور اللہ کے احکام کی انجام دہی پر ناقابل بیان اطمینان نصیب ہوگا۔ حقداروں کو ان کا حق ملے گا، رشتوں ناطوں کے ساتھ آپ کے تعلقات بہتر اور مضبوط ہوں گے، دولت کی عدم ترکیز کا سلسلہ شروع ہوگا اور سماج میں دیرپا خوشی و مسرت، فلاح و بہبود اور اطمینان و شادمانی کی فضا بنے گی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ شریعت اسلامیہ کے احکام پر عمل پیرا ہونے سے اللہ کی رضا ملے گی! اور اللہ کی رضا کا حصول ہی دنیا وآخرت کی کامیابی کا ضامن ہے!! "فَفِرُّوا إلى الله"!!!

بشکریہ: دی فری لانسر، ممبئ

Comments

Popular posts from this blog

مسجد غمامہ ایک تعارف

عید کے موقع پر لڑکیوں سے گلے ملنا کیسا ہے؟

Location of the Arabs