بیس رکعت تراویح پڑھانے والوں کو چند نصیحتیں



بیس رکعت تراویح پڑھانے والوں کو چند نصیحتیں

*ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ*    
        نماز تراویح نفل عبادت ہے، اس میں اتنی گنجائش ہے کہ حسب وسعت وطاقت دو، چار، اٹھ، دس، یا بیس رکعت تراویح کی نماز پڑھی جائے، کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا"صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً، تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى"(صحیح بخاری:990) رات کی نماز (تہجد اور تراویح) دو دو رکعت ہے، پس جب تم میں سے کسی کو صبح نمودار ہونے کا خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لے یہ اس کے لیے وتر ہو جائے گی جو اس نے نماز ادا کی ہے-
       لہذا نفل سمجھ کر بیس رکعت تراویح ادا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، البتہ سنت گیارہ رکعت ہی ہے، مگر جو لوگ بیس پڑھانے والے ہیں، ہم ان سے یہ کہنا چاہیں گے کہ آپ بیس رکعت شوق سے پڑھائیں آپ کو یہ عبادت مبارک ہو، لیکن ہم نے اکثر جو بیس رکعت کا مشاہدہ کیا ہے وہ آپ کی خدمت میں بطور نصیحت عرض کررہے ہیں-
     اول: بیس رکعت تراویح رسول سے ثابت نہیں ہے، لہذا بیس رکعت پڑھانے کو بہت بڑی سعادت نہ سمجھیں اور آٹھ رکعت پڑھنے والوں پر کبھی برہم اور نالاں نہ رہیں-
دوم: بیس رکعت تراویح پڑھانے والے حفاظ ننانوے فیصد قرآن بہت تیز پڑھتے ہیں، حتی کہ بعض مقامات پر حروف ہی نہیں بلکہ کلمے تک کھا جاتے ہیں، اخفاء، ادغام، سکتہ، قلقلہ جیسے قواعد تجوید کی رعایت تو بہت دور کی بات ہے، لہذا ایسے حفاظ یا ائمہ جو قرآن کریم کو اطمینان وسکون سے نہیں پڑھتے ہیں وہ لحن جلی کے بھیانک مرض میں مبتلا ہیں، اور ایسے حفاظ کا نماز پڑھانا یا ان کے پیچھے نماز ادا کرنا دونوں درست نہیں ہے، ہماری یہ ناصحانہ گزارش ہوگی کہ ایسے لوگوں کو منصب امامت پر کھڑا کر کے اللہ کے گھر مسجد اور اللہ کی کتاب قرآن کی توہین کرنے میں تعاون نہ کریں، ایسے شخص کو امام بنائیں جو قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہو، کیونکہ یہی تو قرآن کے پڑھنے کا ادب ہے-
سوم: بیس رکعت پڑھانے والے جلد تراویح کی نماز ختم کرنے کے چکر میں نماز کے ارکان کو ٹھیک ادا نہیں کرتے ہیں، بس جیسے تیز رفتار میں قرآن پڑھتے ہیں ویسے ہی پھٹا پھٹ رکوع وسجود ادا کرتے ہیں، بیس رکعت تراویح کی نماز میں آپ کو شاذونادر کہیں اعتدال دکھائی دے، مگر یاد رہے کہ جو نماز خشوع وخضوع اور تعدیل ارکان سے خالی ہو یقیناً وہ نماز نماز کے لائق نہیں ہے، وہ نماز مردود ہے، جیسا کہ مسجد نبوی میں ایک شخص داخل ہوا اور دو رکعت نماز ادا کی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں حاضر ہوا تو آپ نے کہا جاؤ پھر سے نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی ہے(صحیح بخاری:757)
چہارم: بیس رکعت تراویح پڑھانے والے عموماً قیام بالکل ہلکا اور مختصر کرتے ہیں جو کہ تراویح اور قیام اللیل کے تقاضے کے خلاف ہے، خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اتنا طویل قیام کرتے تھے کہ پاؤں مبارک سوج جاتے تھے (صحیح بخاری:1130) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تراویح کی نماز میں جب قیام کرتے تھے تو بعض لوگ لاٹھیوں پر ٹیک لگانے پر مجبور ہوجاتے تھے(موطا امام مالک:250)
        یہ چار گزارشات ہیں جن پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے ورنہ تراویح تراویح نہیں رہے گی نماز ایک کھلونا اور مذاق بن کر رہ جائے گا، اللہ تعالٰی ہم جمیع مسلمانوں کو تراویح کی نماز سکون سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین-
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
        *ابوعبداللہ اعظمی محمدی مہسلہ*
  *مقیم حال آبائی گاؤں مصرپور اعظم گڑھ*
21/05/2018

Comments

Popular posts from this blog

مسجد غمامہ ایک تعارف

عید کے موقع پر لڑکیوں سے گلے ملنا کیسا ہے؟

Location of the Arabs