کیا پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنا درست ہے؟


کیا پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنا درست ہے؟
    
       بلاشبہ ماہ شعبان یہ وہ مہینہ ہے جس میں بکثرت روزہ رکھنا مسنون اور مستحب عمل ہے، کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ بکثرت روزہ رکھا کرتے تھے، جیسا کہ  صحیح بخاری کی مشہور روایت میں ہے، حدیث ملاحظہ کیجیے، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ لاَ يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ لاَ يَصُومُ. فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلاَّ رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ"(صحيح بخاری:1969) حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہنے لگتے تھے کہ آپ افطار نہیں کریں گے اور آپ افطار کرتے تھے یہاں تک کہ ہم کہنے لگتے کہ آپ روزہ نہیں رکھیں گے، اور میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے رمضان المبارک کے کسی دوسرے مہینہ کا مکمل روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، اور اسی طرح آپ کو شعبان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں اکثر روزہ رکھتے ہوئے نہیں پایا، یعنی آپ ماہ شعبان میں اکثر روزہ رکھا کرتے تھے، جیسا کہ بخاری کی دوسری روایت میں ہے، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حَدَّثَتْهُ قَالَتْ لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرًا أَكْثَرَ مِنْ شَعْبَانَ، فَإِنَّهُ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ"(صحيح بخاری:1970) حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں روزہ نہیں رکھتے تھے، اور آپ تو پورا شعبان روزہ رکھتے تھے-    
 قارئین کرام! اسلام میں روزہ رکھنا بہت مبارک عمل ہے، اسلام نے روزہ رکھنے کی بڑی ترغیب دی ہے، لہذا جن دنوں میں روزہ رکھنا مشروع ہے اس دن روزہ رکھنا باعث اجروثواب ہے، لیکن اگر ہم اپنی طرف سے کسی دن کو روزے کے لیے خاص کر لیں اور اس کی خود فضیلت متعین کرلیں تو ایسے روزوں کی اسلام میں کوئی قدروقیمت نہیں ہے، چنانچہ شب برات کا روزہ بھی ان روزوں میں سے ہے جن کو لوگوں نے اپنی طرف سے گڑھ لیا ہے، اور اس کے ثبوت کے لیے نادان لوگ موضوع اور باطل روایتوں کا سہارا لیتے ہیں، جیسے سنن ابن ماجہ کی یہ روایت ہے، "إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُومُوا لَيْلَهَا، وَصُومُوا يَوْمَهَا"(سنن ابن ماجہ:1378-موضوع) جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو اس کی رات کو قیام کرو، اور دن میں روزہ رکھو-
         یہ خالص موضوع روایت ہے، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة:2132/میں اس کو سخت موضوع قرار دیا ہے، کیونکہ اس کی سند میں ابن ابی سبرۃ (ابوبکر بن عبداللہ بن محمد بن ابی سبرۃ) راوی ہے جو وضاع یعنی غیر معتبر ہے، اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا کہ امام احمد بن حنبل اور ابن معین رحمہما اللہ مذکور راوی ابن ابی سبرۃ کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ یہ موضوع روایت بیان کرتا تھا، لہذا ایسے جھوٹے اور غیر معتبر راوی سے روایت لینا اور اس سے کچھ استدلال کرنا درست نہیں ہے-
        خلاصہ کلام یہ ہے کہ شب برات کے روزے کے ثبوت میں کوئی بھی صحیح روایت نہیں ہے، اس لیے اس دن روزہ رکھنا مشروع اور مسنون نہیں بلکہ یہ ایک خالص بدعت ہے، ہاں اگر کوئی ایام بیض یا پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتا تھا تو وہ اس دن روزہ رکھ سکتا ہے، لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ روزہ جب ایک مبارک عمل ہے تو شب برات کا روزہ رکھنے میں حرج کیا ہے تو میں کہوں گا کہ جس چیز پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے نہیں کیا تو اس پر عمل کرنا ہی سب سے بڑا حرج ہے، کیونکہ بدعت پر عمل اور اتنی بیباکی اور جرأت مندی کا مظاہرہ یہ کسی باغیرت مومن کا قول نہیں ہوسکتا ہے، دعاہےرب العالمین سے کہ مولائے کریم ہم سبھوں کو ہر قسم کی بدعات وخرافات سے بچائے آمین-
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
        

Comments

Popular posts from this blog

مسجد غمامہ ایک تعارف

عید کے موقع پر لڑکیوں سے گلے ملنا کیسا ہے؟

Location of the Arabs