*مہمانوں کی ضیافت ایک عظیم عبادت*
*مہمانوں کی ضیافت ایک عظیم عبادت*
مہمانوں کی عزت کرنا جہاں یہ فطری ضرورت ہے وہیں یہ ایک عظیم عبادت بھی ہے بشرطیکہ اسے دین اور شریعت کا حکم سمجھ کر ادا کیا جائے، ریا ونمود سے ہٹ کر اخلاص اور خلوص للہیت کے ساتھ انجام دیا جائے، کیونکہ ہر نیکی کی قبولیت میں اخلاص اور ایمان دونوں رکن رکین ہیں، مہمانوں کی عزت وتکریم کرنا، حسن اخلاق سے پیش آنا، اچھے سے اچھا کھلانا، رہنے رسہنے کا بہترین انتظام کرنا ہمارے دین کا بنیادی حصہ ہے، شریعت مطہرہ نے مہمانوں کی ضیافت اور خاطر داری کو ایمان کی مرکزی پہچان بتلائی ہے، مطلب یہ کہ اگر کسی کے ایمان کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے یہاں مہمان بن کر جائیے-
مہمان نوازی ایمان کی شناخت ہے، اس کی دلیل صحیح بخاری کی یہ روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ"(صحيح بخاری:6018) جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو خبردار اسے چاہیے کہ کبھی وہ اپنے پڑوسی کو ایذا اور تکلیف نہ پہنچائے، اور جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت وتکریم کرے، اور جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خیر اور سچ بولے ورنہ خاموش رہے-
اس حدیث کا صاف مطلب ہے کہ جو مہمان کی قدر وتعظيم کرے دراصل وہی ایمان کے راستے پر ہے اور جو اپنے مہمان کی عزت نہ کرے اس کا حق ادا نہ کرے وہ راہ ایمان سے بھٹکا ہوا ہے، اس کی یہ بدخلقی ایمان کی کمزوری کی صریح نشانی ہے-
المہم مہمان نوازی مسلمان پر تین دن واجب اور ضروری ہے، اس کی دلیل یہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتَهُ. قَالَ وَمَا جَائِزَتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ:يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَالضِّيَافَةُ ثَلاَثَةُ أَيَّامٍ، فَمَا كَانَ وَرَاءَ ذَلِكَ فَهْوَ صَدَقَةٌ عَلَيْهِ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ"(6019) جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی دستور کے موافق ہر طرح عزت و توقیر کرے، پوچھا گیا اے اللہ کے رسول دستور کے موافق کب تک ہے؟ تو آپ علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا کہ ایک دن اور ایک رات یعنی ایک دن ورات اپنے مہمان کو اچھے سے اچھا کھلائیں پلائیں، اور حق ضیافت تین دن ہے، اور جو اس کے بعد ہو وہ اس مہمان پر صدقہ ہے یعنی باعث عبادت اور ثواب ہے، اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اچھی گفتگو کرے یا پھر خاموشی اختیار کرے-
ان دونوں روایتوں میں مہمانوں کی خاطر داری اور تواضع کی جامع تعلیم دی گئی ہے، اور مہمانوں کی عزت وتکریم کو ایمان کا معیار اور شعار بتلایا گیا ہے، لہذا ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے مہمانوں کی اچھی ضیافت کریں، دعاہےرب العالمین سے کہ مولائے کریم ہم سبھوں کو مہمانوں کی ضیافت کو عبادت اور سنت سمجھ کر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین-
Comments
Post a Comment