Posts

Showing posts from June, 2018

بغير ولی کے شادی نہیں ہوسکتی ہے

          *بغير ولی کے شادی نہیں ہوسکتی ہے *ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمیؔ محمدیؔ مہسلہ              شادی نفس کی اہم ترین ضرورت ہے، بغیر شادی کے انسان ناقص اور اس کی زندگی بےسود ہے، شادی نفس اور قلب وجگر کی تسکین کا باعث ہے، شادی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، شادی انبیاء کی سنت ہے، شادی سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے، شرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے، شادی خیر وبرکت کی سواری ہے، الغرض شادی کی اتنی زیادہ اہمیت اور افادیت ہے جس کا کوئی منکر نہیں ہے-        مگر یہ بات یاد رہے کہ ہر شادی خیر وعافیت کا مظہر نہیں بنتی ہے، وہی شادی خیر وبرکت کا باعث ہے جس میں کم خرچ ہو، شادی کا حقیقی لطف اور مزا اسی وقت ہے جب نکاح شرعی طریقے کے مطابق ہو-       سوال یہ ہے کہ شرعی نکاح کیسے ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ولی اور گواہوں کی موجودگی میں دلہے سے مع مہر ایجاب وقبول کرانے کا نام نکاح ہے، نکاح میں ولی کا ہونا شرط ہے، بغیر ولی کے نکاح نہیں ہوگا، اسلامی شریعت میں ولی کے بغیر نکاح شرعی کا کوئی تصور نہیں ہے، جو شخص کسی لڑکی سے بغیر ولی کی اجازت سے شادی کرلے، یا اسی طرح کوئی لڑکی خود اپنا کورٹ میرج کرلے تو ایسا نکاح

عید کے موقع پر لڑکیوں سے گلے ملنا کیسا ہے؟

*عید کے موقع پر لڑکیوں سے گلے ملنا کیسا ہے؟ *ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمیؔ محمدیؔ مہسلہ*      بغل گیر ہونے، گلے ملنے کو عربی میں معانقہ کہتے ہیں، معانقہ یہ عنق سے ماخوذ ہے، عنق عربی میں گردن کو کہتے ہیں چونکہ گلے ملنے میں گردن گردن سے ملتی ہے، اس لیے معانقہ سے تعبیر کیا گیا ہے، معانقہ، مصافحہ اور سلام یہ تینوں مسنون عمل ہے، سلام اور مصافحہ تو ملتے جلتے وقت کبھی بھی کر سکتے ہیں، لیکن معانقہ یہ سفر کی واپسی پر پہلی ملاقات کے وقت ہے، اس کے علاوہ عام دنوں میں یا عیدین اور جمعہ کی خوشی میں معانقہ کرنا سنت اور اسلاف امت سے ثابت نہیں ہے، مرد مرد سے مصافحہ کرے، اس سے بغل گیر ہو، عورت عورت سے مصافحہ کرے آپس میں گلے ملے، یہ جائز ہے، لیکن کسی اجنبی مرد کا کسی اجنبی عورت سے یا اجنبی عورت کا کسی اجنبی مرد سے مصافحہ اور معانقہ کرنا جائز نہیں ہے، یہ نہایت گندہ اور فحش کام ہے، زنا اور بےحیائی میں داخل کرنے والا عمل ہے، شریعت مطہرہ میں عورت کو اجنبی مرد سے اور مرد کو اجنبی عورت سے آپس میں پردہ کرنے اور نگاہ جھکانے کا حکم دیا ہے، اور آپس میں بات چیت کرنے، تانک جھانک کرنے، نظر سے نظر ملانے،

جماعت چھوڑ کر فجر کی سنت پڑھنا صحیح ہے؟

 جماعت چھوڑ کر فجر کی سنت پڑھنا صحیح ہے؟ بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين *ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ*          نوافل کی پابندی ایک مستحسن اور پسندیدہ عمل ہے، اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا بنیادی ذریعہ ہے، کل قیامت کے دن یہ نوافل فرائض کا متبادل ہو جائیں گے، سنن ونوافل میں سب سے افضل قیام اللیل یعنی تہجد کا پڑھنا ہے، پھر سب سے افضل فجر کی دو رکعت سنت جماعت سے پہلے ادا کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سفر وحضر میں اس سنت کے پڑھنے کا غیر معمولی التزام کرتے تھے، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، "لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ"(صحیح بخاری:1169) فجر سے پہلے دو رکعت سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی نوافل کا شدید اہتمام نہیں کیا ہے-       اس روایت سے فجر کی سنت کی اہمیت کا پتا چلتا ہے، لہذا ہمیشہ فجر سے پہلے دو رکعت سنت کا اہتمام کرنا چاہیے، اور اگر کبھی لیٹ ہو جائے اور مسجد پہنچنے پر جماعت کھڑی ہو

تراویح کی نماز میں قرآن کیسے پڑھنا چاہیے؟؟

 تراویح کی نماز میں قرآن کیسے پڑھنا چاہیے؟؟ بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين *ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ*          قرآن اللہ کا کلام ہے، جو پیارے نبی پر نازل ہوا، ماہ رمضان سے اس کے نزول کا آغاز ہوا، اور یہ قرآن آہستہ آہستہ تھوڑا تھوڑا وقفے وقفے سے نازل ہوتا رہا، یہاں تک کہ تیئیس سالہ نبوت کی مدت میں (نزول قرآن کے اعتبار سے) قرآن پائے تکمیل کو پہنچا-        قرآن کا پڑھنا یا پڑاھنا نہایت ہی قابل رشک اور مبارک عمل ہے، اور ماہ رمضان میں قرآن کا پڑھنا اور پڑاھنا یہ تو اعلی درجہ کا نیک کام ہے، کیونکہ قرآن کا رمضان سے بڑا گہرا ربط ہے، یہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے، ہمارے اسلاف اس ماہ میں قرآن پاک کی تلاوت کا غیر معمولی اہتمام کرتے تھے، خود پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہر سال ماہ رمضان میں مکمل قرآن جبرئیل امین کو سننے اور سنانے کا اہتمام فرماتے تھے مگر جس سال آپ کی وفات ہوئی آپ نے دو مرتبہ قرآن کا دور جبرئیل امین کو سنایا تھا- قارئین کرام! قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی بڑی فضیلت ہے، لیکن یہ بات یاد رہے کہ قرآن پڑھنے کا فائدہ اور ثواب اسی کو ملے گا جو قرآن پڑھنے کے آ

اہل حدیث کیا ھے اور کون ھیں "؟

اہل حدیث کیا ھے اور کون ھیں "؟ یہ دو لفظوں کا مرکب ہے: (۱) اہل (۲) حدیث اہل کا معنی والا۔ حدیث کا معنی بات اور گفتگو۔ اصطلاحاً: محدثین کی اصطلاح میں حدیث ہی اس قول فعل یا تقریر کوکہتے ہیں جو رسول ﷺ کی طرف منسوب ہو۔(القاموس الوحید) نبی کریم ﷺ کی بات کے علاوہ اللہ کے کلام قرآن مجید کو بھی حدیث کہا جاتا ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (اللّٰہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ)(الزمر۔23) ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے بہترین حدیث نازل فرمائی ہے۔ پتہ چلا کہ(قرآن و حدیث‘‘ ان دونوں کو مشترکہ طور پر ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے۔ اہل حدیث کا معنی قرآن و حدیث والا۔یعنی قرآن و حدیث پر عمل کرنے والا۔ 📌 *اہل حدیث کی ابتداء*📌 نبی کریم ﷺ کی زندگی کے آخری ایام میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر وادی منٰی میں خلفاء اربعہ، عشرۃ مبشرہ، حفاظ قرآن ، کاتبین وحی و دیگر ہزاروں صحابہ کے عظیم الشان مجمع کو تلقین کرتے ہوئے کہا تھا’’تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسّکْتُمْ بِہِمَا کِتَابَ اللّٰہ وَسُنَّۃِ نَبِیِّہِ‘‘ ترجمہ:میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے