Posts

Showing posts from May, 2018

مشہور دعائے تراویح کا مختصر جائزہ

مشہور دعائے تراویح کا مختصر جائزہ          ماہ رمضان میں بعد نماز عشاء تراویح کی نماز مع وتر گیارہ رکعت مسنون ہے، پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس نماز کی ادائیگی کی بڑی ترغیب دی ہے، اور اس کو گناہوں کی مغفرت کا سبب بتایا ہے، لہذا اس نماز کا مسلمانوں کو غیر معمولی اہتمام کرنا چاہیے، الحمدللہ کثیر تعداد میں مسلمان اس نماز کی ادائیگی میں فرائض سے زیادہ توجہ دیتے ہیں، لیکن صحیح مانو میں تراویح کی نماز مع وتر گیارہ رکعت پڑھنے والے ہی سنت کے اصل پیروکار ہوتے ہیں، حدیث رسول کے سچے شیدائی ہوتے ہیں، وہ اکثر وہی کرتے ہیں جو صحیح احادیث سے ثابت ہو، وہ ہمیشہ بدعات وخرافات سے کوسوں دور بھاگتے ہیں، لیکن ہمارے وہ بھائی جو بیس رکعت تراویح کو اصل سنت سمجھنے والے ہیں ان کے یہاں سنت کا کوئی خاص التزام اور احترام نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ بدعات وخرافات کے عمیق کھائی میں غرق ہیں، بطور مثال ماہ رمضان کے قیام تراویح میں آپ اہل تقلید کے یہاں یہ چیز ضرور دیکھیں گے کہ وہ ہر چار رکعت کے بعد قدرے اطمینان کرتے ہیں، اور اسی دوران ایک دعا پڑھنے کا غیر معمولی اہتمام کرتے ہیں، اور اگر جن کو یاد نہ ہو تو ان

قرآن دیکھ کر تراویح کی نماز پڑھا سکتے ہیں؟

قرآن دیکھ کر تراویح کی نماز پڑھا سکتے ہیں؟         ماہ رمضان میں تراویح کی نماز پڑھنا سنت ہے، اس نماز کے پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے، اور بہتر ہے کہ پورے رمضان کی تراویح میں ایک قرآن مکمل ختم کیا جائے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی اچھا حافظ نماز پڑھائے، البتہ اگر حافظ نہ ملے تو کوئی صاحب تقوی وبزرگ شخص قرآن دیکھ کر نماز تراویح پڑھا سکتا ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں یہ روایت تعلیقاََ ذکر کی ہے کہ "وَكَانَتْ عَائِشَةُ يَؤُمُّهَا عَبْدُهَا ذَكْوَانُ مِنَ الْمُصْحَفِ"(صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب إِمَامَةِ الْعَبْدِ وَالْمَوْلَى) عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ذکوان رحمہ اللہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وغیرہ کو مصحف دیکھ کر نماز پڑھایا کرتے تھے-         اس روایت کی شرح میں مشہور شارح علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں"استدل به على جواز قراءة المصلي من المصحف، ومنعه منه آخرون لكونه عملا كثيرا في الصلاة"(فتح الباری:185/2) اسی روایت سے استدلال کیا گیا ہے کہ مصلی کا قرآن دیکھ کر پڑھنا جائز ہے، مگر بعض لوگوں نے اس سے منع کیا ہے، اس وجہ

Part 2 بیس رکعت تراویح پڑھنے والوں کے لیے چند نصیحتیں

بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين Part 2 بیس رکعت تراویح پڑھنے والوں کے لیے چند نصیحتیں *ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ*               تراویح رمضان المبارک کی ایک عظیم الشان عبادت ہے، تراویح گناہوں کی مغفرت کا باعث ہے، جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایابا"مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ"(صحیح بخاری:37) جو ایمان واخلاص اور اجروثواب کی امید کے ساتھ رمضان المبارک میں قیام کرے اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں-         تراویح کا مسئلہ ہر رمضان میں موضوع بحث رہتا ہے، آٹھ اور بیس کے متعلق امت مسلمہ میں جو سر پھٹول جاری ہے لگتا ہے کہ یہی رمضان کا سب سے بھاری سبق اور عظیم پیغام ہے جسے دہرانے کی ہر سال ضرورت پیش آتی ہے، بیس پڑھنے والے آٹھ پڑھنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگ چپکے سے آٹھ پڑھ کر دبے پاؤں مسجد سے باہر نکل آتے ہیں، جب کہ تراویح نفل نماز ہے، اور الحمدللہ ہم یہ توسع رکھتے ہیں کہ اگر نفل سمجھ کر بیس رکعت تراویح پڑھ لے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے گرچہ بیس رکعت

بیس رکعت تراویح پڑھانے والوں کو چند نصیحتیں

بیس رکعت تراویح پڑھانے والوں کو چند نصیحتیں *ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ*             نماز تراویح نفل عبادت ہے، اس میں اتنی گنجائش ہے کہ حسب وسعت وطاقت دو، چار، اٹھ، دس، یا بیس رکعت تراویح کی نماز پڑھی جائے، کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا"صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً، تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى"(صحیح بخاری:990) رات کی نماز (تہجد اور تراویح) دو دو رکعت ہے، پس جب تم میں سے کسی کو صبح نمودار ہونے کا خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لے یہ اس کے لیے وتر ہو جائے گی جو اس نے نماز ادا کی ہے-        لہذا نفل سمجھ کر بیس رکعت تراویح ادا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، البتہ سنت گیارہ رکعت ہی ہے، مگر جو لوگ بیس پڑھانے والے ہیں، ہم ان سے یہ کہنا چاہیں گے کہ آپ بیس رکعت شوق سے پڑھائیں آپ کو یہ عبادت مبارک ہو، لیکن ہم نے اکثر جو بیس رکعت کا مشاہدہ کیا ہے وہ آپ کی خدمت میں بطور نصیحت عرض کررہے ہیں-      اول: بیس رکعت تراویح رسول سے ثابت نہیں ہے، لہذا بیس رکعت پڑھانے کو بہت بڑی سعادت نہ

تراویح کتنی رکعت پڑھنی چاہیے

بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين            تراویح کتنی رکعت پڑھنی چاہیے *ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ*                 تراویح یہ نفلی نماز ہے جو بعد نماز عشاء ادا کی جاتی ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ماہ رمضان میں تراویح کی نماز باجماعت صحابہ کرام کو تین یا چار رات پڑھائی ہے، اور آپ کا معمول یہ رہا ہے کہ آپ قیام اللیل رمضان ہو غیر رمضان گیارہ رکعت مع وتر ادا کرتے تھے جیسا امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں باب قائم کیا ہے، بَابُ قِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ: رمضان وغیرہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے قیام اللیل (تہجد وتراویح ) کا بیان- اور اسی باب میں یہ روایت نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم گیارہ رکعت پڑھتے تھے، لیجیے جناب حدیث ملاحظہ فرمائیں، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَ

موٹا چاند دیکھ کر طرح طرح کی باتیں کرنے والوں

موٹا چاند دیکھ کر طرح طرح کی باتیں کرنے والوں کے لئے........ تحریر: نثارمصباحی امام طبرانی المعجم الاوسط میں ایک "حدیثِ حسن" روایت فرماتے ہیں : اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : من اقتراب الساعة أن يرى الهلال قبلا فيقال لليلتين، وأن تتخذ المساجد طرقاً، وأن يظهر موت الفجأة. امام مناوی "التنویر في شرح الجامع الصغیر" میں اس کی شرح میں فرماتے ہیں: (من اقتراب الساعة أن يرى الهلال قبلاً) بفتح القاف والباء الموحدة أي ساعة ما يطلع، لعظمته ووضوحه من غير أن يتطلب. (فيقال: لليلتين) أي يقول من رآه: إنه لليلتين وما هو إلا لليلة. یعنی قیامت کی نشانی ہے کہ نیا چاند نکلتے ہی اپنے موٹے اور واضح ہونے کی وجہ سے بغیر تلاش کیے فورا نظر آ جائے گا. تو کہا جائے گا کہ یہ دو راتوں کا ہے!!! (حال آں کہ وہ دو رات کا نہیں بلکہ اُسی رات کا بالکل نیا چاند ہوگا) نیز قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ مسجدوں کو راستہ بنا لیا جائے گا. نیز اچانک ہونے والی موت کی کثرت ہوگی. امام طبرانی المعجم الصغیر میں ایک "حدیثِ صحیح" روایت فرماتے ہیں : من اقتراب الساعۃ انتفاخ

ماہ رمضان سے ایک دو روز پہلے روزہ نہ رکھیں

بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين  ماہ رمضان سے ایک دو روز پہلے روزہ نہ رکھیں                     ماہ شعبان یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں بندوں کے اعمال اللہ کے یہاں پیش ہوتے ہیں، اسی مناسب سے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ماہ شعبان میں نفلی روزوں کا غیر معمولی اہتمام کرتے تھے، بنابریں ماہ شعبان میں نفلی روزے رکھنا نہایت محبوب اور پسندیدہ عمل ہے، لیکن شعبان کی انتہا یعنی اختتام پر رمضان کی مشاقی کے طور پر روزہ رکھنا شرعاََ منع ہے، لیکن اگر جو پہلے سے روزہ رکھنے کا عادی ہو تو وہ روزہ رکھ سکتا ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا"لاَ يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ، إِلاَّ أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ فَلْيَصُمْ ذَلِكَ الْيَوْمَ"(صحیح بخاری:1914) خبردار تم سے کوئی رمضان المبارک سے ایک یا دو روز قبل روزہ رکھنے کی کوشش نہ کرے، ہاں اگر کوئی شخص اس دن پہلے سے روزہ رکھتے چلا آرہا تھا تو وہ اس دن روزہ رکھ لے-         اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ شعبان کے خاتمہ پر روزہ رکھنا منع ہے، لیکن اگر کوئی پہلے سے نفلی روزے کا پ

کیا پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنا درست ہے؟

کیا پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنا درست ہے؟             بلاشبہ ماہ شعبان یہ وہ مہینہ ہے جس میں بکثرت روزہ رکھنا مسنون اور مستحب عمل ہے، کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ بکثرت روزہ رکھا کرتے تھے، جیسا کہ  صحیح بخاری کی مشہور روایت میں ہے، حدیث ملاحظہ کیجیے، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ لاَ يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ لاَ يَصُومُ. فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلاَّ رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ"(صحيح بخاری:1969) حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہنے لگتے تھے کہ آپ افطار نہیں کریں گے اور آپ افطار کرتے تھے یہاں تک کہ ہم کہنے لگتے کہ آپ روزہ نہیں رکھیں گے، اور میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائ

شب برات کی حقیقت

               شب برات کی حقیقت          پندرہویں شب کو بعض لوگ شب برات کہتے ہیں، لیکن یہ نام عقلاً وشرعاََ غلط ہے، کیونکہ یہ نام شرعی نہیں شیعی ہے یعنی فرقہ شیعہ کا رکھا ہوا ہے، لوگ اس دن کو بہت بڑا تہوار تصور کرتے ہیں، پھر اسی تہوار کی مناسبت سے حلوہ پوڑی پکاتے ہیں، اچھے اور لذیذ پکوان بنا کر فاتحہ دلاتے ہیں، پھر اسے غریبوں اور مسکینوں پر ایصال ثواب کی نیت سے کھلاتے اور پلاتے ہیں، گھروں اور قبروں کو مکمل صاف ستھرا رکھتے ہیں، گھروں مکانوں دکانوں اور مسجدوں وغیرہ میں خوب چراغاں کرتے ہیں، بچے جوان سبھی دین اور عبادت سمجھ کر آتش بازی کرتے ہیں، دن میں روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر قیام کرتے ہیں، ہزار ہزار رکعتیں پڑھتے ہیں، مخصوص اور عجیب و غریب قسم کی نمازیں ادا کرتے ہیں، اپنے گھروں میں فوت شدہ لوگوں کی روحوں کی آمد کا عقیدہ رکھتے ہیں، پندرہویں شعبان کی شب میں قبروں کی خصوصی زیارت کرتے ہیں، وہاں قرآن خوانی کا اہتمام کرتے ہیں، یہ سارے اعمال پندرہویں شعبان کی بدعات وخرافات میں سے ہیں، اور شب برات کا دین اور سنت وشریعت سے ادنی بھی تعلق نہیں ہے، یہی وجہ ہےکہ آپ پوری کتب حدیث اور کتب سیر وتوار