آپ نے مسجد کیوں چھوڑ دی؟
بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين
آپ نے مسجد کیوں چھوڑ دی؟
*ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ*
مسجد اللہ کا گھر ہے، اللہ کے نزدیک اس روئے زمین کی سب سے پاکیزہ اور سب سے پیاری جگہ مسجد ہے، سوچیے دنیا میں ہزاروں اور کھربوں کی تعداد میں بڑے بڑے محلات ہوں گے، شاہی حویلیاں ہوں گی، شیش محل ہوں گے، عمدہ و حسین گھر ہوں گے، عجوبہ مکانات ہوں گے، مگر وہ سب پیارے نہیں ہیں، مسجد اللہ کو پیاری ہے چاہے وہ جیسی بھی ہو، چھپر کی ہو، لکڑی کی ہو، چھت نما ہو، چھوٹی ہو، بڑی ہو، یقیناً بڑا خوش نصیب ہے وہ انسان جس کا قدم مسجد کی طرف بڑھتا ہے، مسجد سے قریب رہتا ہے اور بڑا بدنصیب ہے وہ انسان جو مسجد سے بھاگتا ہے، باجماعت مسجد میں نماز نہیں ادا کرتا ہے، مسجد سے دشمنی کرتا ہے، جہالت کی انتہاء ہے کہ آدمی اپنی مسجد چھوڑ دے اور گھر میں نماز پڑھے، اسلام میں اجتماعیت ہے، باجماعت نماز پڑھنے کی فضیلت بھی ہے، تاکید بھی ہے اور جماعت چھوڑنے پر وعید بھی ہے، بعض علماء نے یہاں تک کہا ہے کہ جو شخص بنا عذر شرعی کے جماعت چھوڑ کر گھر میں نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوگی-
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے سماج میں بالخصوص دیہاتوں میں یہ وبا پھیل رہی ہے کہ معمولی معمولی اختلاف کی وجہ سے آدمی اپنی مسجد کو خیر آباد کر دیتا ہے، امام سے اختلاف ہو گیا مسجد چھوڑ دی، مقتدی سے جھگڑا ہو گیا مسجد چھوڑ دی، ٹرسٹی سے توتو میں میں ہو گیا مسجد آنا چھوڑ دیا، وہ پنچ وقتہ نمازی ہے مگر مسجد میں باجماعت نہیں پڑھتا ہے گھر میں پڑھتا ہے، اس کے پاس کوئی عذر شرعی نہیں ہے بس ایک اختلاف یہی رکاوٹ ہے-
دیکھیے جہاں چار لوگ رہیں گے اختلاف ہوگا، صلح کرلو، لیکن ہمارا اختلاف اس انتہاء تک پہنچ جائے کہ ہم کسی کی وجہ سے یا اپنے کسی اختلاف کی وجہ سے اللہ کے گھروں کو چھوڑ دیں یہ ہماری زیادتی اور شرارت ہے ہمیں اس حدیث کو یاد کرنا چاہیے اور اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے، پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں: "لَيْسَ صَلاَةٌ أَثْقَلَ عَلَى الْمُنَافِقِينَ مِنَ الْفَجْرِ وَالْعِشَاءِ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا، لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ الْمُؤَذِّنَ فَيُقِيمَ، ثُمَّ آمُرَ رَجُلاً يَؤُمُّ النَّاسَ، ثُمَّ آخُذَ شُعَلاً مِنْ نَارٍ فَأُحَرِّقَ عَلَى مَنْ لاَ يَخْرُجُ إِلَى الصَّلاَةِ بَعْدُ"(صحیح بخاری:657) منافقوں پر فجر و عشاء سے زیادہ بھاری کوئی نماز نہیں ہے، اگر وہ لوگ جان جاتے کہ ان دونوں نمازوں میں کیا (خیر وبھلائی) ہے تو وہ گھٹنے کے بل گھسٹ کر ضرور دونوں نمازوں میں تشریف لاتے، میں نے تو یہ ارادہ کر لیا تھا کہ میں مؤذن کو اقامت کہنے کا حکم دوں وہ اقامت کہے اور میں کسی آدمی کو نماز پڑھانے کا حکم دوں وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں آگ کا ایک شعلہ لوں پھر ان کو آگ سے جلا دوں جو نماز پڑھنے کے لیے نہیں نکلتے ہیں-
لہٰذا ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے اختلاف کو سائڈ میں رکھیں، مسجد سے دشمنی نہ کریں، کبھی مسجد نہ چھوڑیں، مسجد آنا جانا بند نہ کریں، مسجد میں نماز پڑھیں، جماعت کی پابندی کریں، یہی اہل ایمان کی پہچان ہے، اللہ تعالٰی ہم سب کو علم وعمل کی توفیق عطا فرمائے آمین-
═════ ❁✿❁ ══════
14 /11/2019
Comments
Post a Comment